Home » شیرانی رلی » غزل  ۔۔۔ اورنگ زیب

غزل  ۔۔۔ اورنگ زیب

ہَوس نے مجھ سے پوچھا تھا تمہارا کیا ارادہ ہے
بدن کارِ محبت میں برائے استفادہ ہے

کبھی پہنا نہیں اس نے مرے اشکوں کا پیراہن
اْداسی میری آنکھوں میں ازل سے بے لبادہ ہے

بھڑک کر شعلہء وحشت لہو میں بْجھ گیا ہوگا
ذرا سی آگ تھی لیکن دھواں کتنا زیادہ ہے

اگر تم غور سے دیکھو رخِ مہتاب کم پڑ جائے
فلک پر اک ستارے کی جبیں اتنی کشادہ ہے

مجھے مسکن سمجھتے ہیں عجب آسیب ہیں غم کے
میں اک دو سے نمٹ بھی لوں یہ پورا خانوادہ ہے

اْسے دھندے سے مطلب ہے وہ دیمک بیچنے والا
اِسے وہ خاک سمجھے گا، یہ خوابوں کا برادہ ہے

ہم اس سے چاہ کر بھی بچ نہیں سکتے کسی صورت
نبھانا پڑتا ہے اِس کو، محبت ایک وعدہ ہے

مجھے شطرنج کے خانوں میں چلنا تْو سکھائے گا ؟
میں فرضی بن چکا کب کا، تْو اب تک اک پیادہ ہے

نجانے کاتبِ تقدیر نے کیا لکھ دیا اس پر
مری تقدیر کا صفحہ نہ سیدھا ہے نہ سادہ ہے

میں اس حالت میں زیب آخر کہاں چلتے ہوئے جاؤں
نہ مجھ میں حوصلہ باقی نہ منزل ہے نہ جادہ ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *