Home » پوھوزانت » شام سے آنے والے ای میلز ۔۔۔ سلمیٰ اعوان

شام سے آنے والے ای میلز ۔۔۔ سلمیٰ اعوان

یکم اکتوبر کو اخبارات میں چھپنے والی اِس خبر نے چونکا دیا ہے۔بے اختیار بہت سی باتیں یادوں میں اُبھری ہیں۔پہلے تو یہی سوال لبوں پر آیا ہے کہ یہ داعش ہے کیا؟ کمبخت ماری۔آگ چوتھے محلے لگے ،کوئی خون خرابہ کوسوں میل دور ہو۔اِسے یونہی اچھل پیڑے لگ جاتے ہیں۔اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے۔ کوٹھے پر چڑھ کر اعلان کرنے کے کہ یہ آگ تو میں نے لگائی تھی۔اس بیہمانہ خون خرابے کی ذمہ دار میں ہوں۔اب لاس ویگاس میوزک کنسرٹ کی خبر کو ہی لے لیجئیے۔سٹیفن پیڈوک حملہ آور کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ایک جنونی آدمی تھا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آور کا تعلق کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم سے لگتا نہیں ہے ۔مگر اِس داعش کی سُنیں ۔حال ہے نا وہ آبیل مجھے مار۔فوراً ذمہ داری قبول کرلی کہ اِن تباہ کن ہلاکتوں کو میرے کھاتے میں ڈالو۔
ہم نے تو سچی بات ہے اِس داعش بارے یہ بھی سُنا اور پڑھا ہے کہ یہ امریکہ کا بغل بچہ ہے اور وہ جو اس کا خود ساختہ لیڈر ابوبکر ال بغدادی ہے قطعاً کوئی عراقی نہیں۔یہ وہ شخصیت ہے جسے امریکہ اکیسویں صدی کا لارنس آف عریبیا بنانے جارہا ہے۔
آئی ایس آئی کی تشکیل کے بعد دنیا کے سر پر یہ نئی ڈریکولا داعش کی صورت کھڑی ہوگئی  ہے کہ جس ملک کا مکھو ٹپنا ہو ۔جواز تو رہے۔
اب ذرا اِس داعش اور ISIS کی وہ تصویری جھلکیاں دیکھیں جو مجھے شام کی خانہ جنگی کے دوران ڈاکٹر ہدا کی جانب سے ای میلوں کی صورت ملی تھیں۔
۔2008میں جب میں شام کی سیاحت کے لیے گئی۔تب شام بظاہر پر امن اور پرسکون تھا۔لوگوں کو حکومت سے ڈھیروں ڈھیر شکایات تھیں جو بظاہر دبی ہوئی تھیں ۔ڈاکٹر ہدا مجھے دمشق سیٹیڈل کے اعظم پیلس میں ملی تھیں۔جن سے میرا ای میل رابطہ خانہ جنگی کے دوران بھی رہا۔
ثمریز بک شام کی بڑی انقلابی خاتون تھیں جو حکومتی ہٹ لسٹ پر تھی۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں وہ فرانس بھاگ گئی تھی۔
تقریباً اگلے ایک سال کے عرصے میں اس نے تین بار ترکی کے راستے سرحد پار کی۔ اِن سفروں میں اس کی مختلف النوع لوگوں سے ملاقاتوں نے اُسے جہادیوں کے اصلی چہرے دکھائے۔وہ غیر ملکی شازشوں کی گہرائی سے آگاہ ہوئی۔
بہت سے سنجیدہ اور سمجھدار شامیوں کی طرح وہ بھی اِس صورت سے دل گرفتہ اور پریشان تھی کہ اسد حکومت کے جانے اور جہادیوں کے آجانے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ یہ صرف ایک آمریت سے دوسری بدترین تنگ نظر اور متعصب آمریت کے دوزخ میں گرنے والی بات ہوگی۔
القاعدہ اور ISIS کے مقامی لیڈران سے اُس کا ملنا ، ان کے خیالات ونظریا ت سے آگاہی بہت سے حوالوں سے اس جیسی روشن خیال خاتون کے لئے بہت مایوس کن تھی۔وہ عورتوں اور اُن کی آزادی کے حوالے سے بے حد متعصب تھے۔ شام کے خوبصورت چہرے کے پیچھے اس کے سٹرانڈ مارتے اندر نے ویسے ہی غلاظتوں سے بھرے رہنا تھا۔ بس تھوڑاسا نوعیت تبدیل ہو جاتی۔ اُسے تو یہ بھی احساس ہوا کہ یہ جنگ تو غیر ملکیوں کی ہے۔عراق کو تباہ کرنے کے بعد وہ شام کی تباہی کے درپے ہوگئے ہیں۔ متشدد پسند لوگوں کی جن کی مدد بھی نہیں کی جاسکتی ۔
ایک اور جگہ اُس نے لکھا۔
شام کے دکھ درد کو محسوس کرنے کی بجائے بڑی طاقتوں نے اپنے اپنے مفادات کی آڑلی۔
۔2012ء تک اُسے احساس تھا اور شاید جب بھی اس کی بات چیت باغیوں کے زیر تسلط علاقوں کے اسلامی امیروں سے ہوئی۔ اس نے یہی جانا کہ وہ سول سیکولر ریاست کے قیام کو پسند کریں گے۔ یہ احساس تو اُسے بہت بعد میں ہوا کہ سب تو ان کی چالیں تھیں۔ ہتھیارکی اور جنگی سامان لینے کی کہ وہ تواپنے زیر تسلط علاقوں میں نہ رشوت ختم کر سکے اور نہ جرائم ۔ دوسرے اور تیسرے چکروں میں یہ تلخ حقائق اور کھل کر سامنے آئے ۔احرار ال شام کے امیر ابو احمد نے کس قدر رعونت سے کہا تھا۔
’’نقاب کے بغیر کوئی عورت باہرنہیں آسکتی۔ علو ی تو شام میں رہ ہی نہیں سکتے ۔ د روز اور اسماعیلی بھی۔ ہاں اگر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو ٹھیک۔‘‘کچھ ایسا ہی رویہ القاعدہ کے لیڈ ر کا تھا۔جس نے اُسے ملنے کے بعد کہا تھا۔
’’ تمہاری بہادری کہ تم ہم سے ملنے آئیں۔‘‘
’’آپ اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں؟کیا بہادر نہیں؟ ‘‘
وہ ہنسا اور بولا۔
’’میں مرد ہوں اور یہ قدرتی امر ہے ۔‘‘
’’اور میں عورت ہوںیہ بھی قدرتی امر ہے۔‘‘
اُس کی ہنسی یکدم رک گئی تھی۔
یہ مذہبی خانے موجود تو پہلے بھی تھے پر اتنے گہرے کبھی نہ تھے۔ ہم جب چھوٹے چھوٹے تھے تو یہ سنی ، یہ شیعہ ، یہ علوی۔ یہ دروز کہیں نہیں تھا۔ ہم سب شامی تھے۔
آئی ایس آئی کے بارے میں وہ برملہ کہتی ہے کہ یہ غیر ملکیوں کی فوج ہے ۔ پھر ذرا واشگاف الفاظ میں کہتی ہے کہ راہزنوں اور لٹیروں کے ٹولے ہیں اور داعش اس سے بھی بڑا فراڈ ہے۔
اُسے تو مغرب کی اُن نوجوان مسلمان لڑکیوں پر بھی شدید غصہ ہے۔ جو مغرب سے ISIS اور داعش میں شمولیت کے لئے سفر کر کے آتی ہیں۔
یہ نوجوان لڑکیاں جو مغربی معاشرے میں پیدا ہوئیں وہیں بڑھی پلی۔ انہیں شام کے بارے کچھ علم ہی نہیں۔ عرب جنگجو ہیرو کی مردانہ وجاہت اور شجاعت اُن کی فینٹسی ہے۔ گھوڑے پر سوار بندوق کے ساتھ جن کی کہانیاں انہو ں نے پڑھی اور سنی ہوں گی۔ مغر ب کی پر سکون زندگی جس سے انہیں بوریت ہوتی ہے۔ تھرل اور کچھ نیا کرنے کی آرزو دھکیل کر یہا ں لے آتی ہے۔
اب ذراڈاکٹر ہدا کی ایک اور ای میل شام کے ایک اور خوبصورت شہر حمص کے ابو حارث کی کہانی سناتے ہوئے ISISاور داعش کے کرداروں پرایک اور رنگ میں روشنی ڈالتی ہے۔ اسے بھی دیکھیے۔
ابو حارث کہتا ہے شام میں اقتصادی بحران نے اپنا منحوس سایہ حمص کے صرف متوسط اورغریب طبقے کے لوگوں پر ڈالا۔ جو کہ آسمان کو چھوتی قیمتوں ،ٹیکسوں کی بلند شرح اور کم آمدنی کی صورت میں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔یہ کتنا بڑا المیہ تھا کہ نوجوان جب تک 30سال کے نہ ہوجاتے وہ شادی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ اپنے خاندان کا آغاز نہیں کرسکتے تھے۔
یہ بھی بڑی کربناک بات تھی کہ ملازمتیں دینے میں امتیازی سلوک نے مقامی لوگوں میں اسد حکومت کے خلاف غصے میں اضافہ کردیاتھا ۔
تو آخر وہ وقت آگیا جب مظاہرین اپریل 2011میں حمص کے مرکز میں اکٹھے ہوتے ہیںیہ وہ دن تھے جب شام کے شہری اُن ڈگمگاتی ہوئی عرب ظالم حکومتوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے جو کہ تیونس ،لیبیا،مصر اور یمن میں انقلابی تحریکوں کے پھیلنے کے بعد ڈگمگارہی تھیں۔یہ تو صاف ظاہر تھا کہ یہ انقلابی بخار شام تک بھی ایک نہ ایک دن پہنچ جانا تھا۔لیکن ہمیں یہ توقع بالکل نہیں تھی کہ درعا کے بچوں نے شہر کی دیواروں پر اشتعال انگیز تحریریں لکھ کر بغاوت کی آگ کو اتنی جلدی ہوا دے دی ہے۔
میں ان احتجاجیوں میں سے ایک تھا جو گرفتار کرلیا گیا کئی ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بعض کوماردیا گیا۔حمص میں سیکورٹی برانچ میں حراست کے دوران مجھے بجلی کے جھٹکے لگا کر اذیت دی گئی اور مارا پیٹا گیا۔جب عام معافی کا اعلان ہوا۔ تب مجھے چھوڑا گیا۔اس کا بڑا مقصد لوگوں کے غصّے کو کم کرنا تھا۔ قید کے دوران میں نے ایک چھوٹے جہادی گروپ میں شمولیت اختیار کرلی۔وہ اچھی طرح تربیت یافتہ تھے اور ہتھیاروں کی تجارت کرتے تھے۔ میں نے ان پُر تشدد واقعات کی اپنے موبائل میں فلم بھی بنائی اور اسے یوٹیوب پر چلانے کے لیے اپنے ان دوستوں کو بھیج دی جو باہر ممالک میں رہتے تھے۔
میں نے سلافی حزب الطاہر میں شمولیت ۔ ان کے ساتھ میں نے بہت سی جنگی مہارتیں سیکھیں۔لیکن میں (جباہتہ النصرہ) کے عروج کو بڑی تحسین کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ان کے شہادت کے کارناموں سے مکمل طور پر متاثر تھا۔اب ہماری لڑائی عالمی برادری اور امریکہ سے ہے۔
میری زندگی مکمل طور پر تب سے تبدیل ہوئی ہے جب سے میں نے داعش میں شمولیت اختیار کی۔مجھے فٹ بال کھیلنے کی بجائے شریعت سیکھنی تھی اور بے دین لوگوں سے لڑنا سیکھنا تھا۔ گانوں کی بھی اجازت نہیں۔اب میری زندگی کا ایک مقصد ہے اور ایک ریاست ہے جس کا مجھے دفاع کرنا ہے۔
چند دنوں میں تیونس کی ایک جہادی ڈاکٹر سے شادی کرنے والا ہوں۔میں نے اس کی مدد کی اور بہت سے لوگوں کی برطانیہ، فن لیند اور پاکستان سے یہاں آنے میں آئسISIS(داعش) جہادیوں کو خوراک، رہائش اور خرچنے کے لئیے پیسہ دیتی ہے۔ اگر ایک جہادی شادی کرنا چاہتا ہے تو آئسISIS(داعش) اُسے پیسہ دیتی ہے اور اس کے گھر کا کرایہ ادا کرتی ہے۔
آخر میں ڈاکٹر ہدا نے مجھ سے سوال کیا ہے مجھے بتاؤ ہم کہاں جارہے ہیں اور یہ سب کیا ہے؟

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *