Home » پوھوزانت » بلوچوں کی بیداری اور سرمایہ داروں کی سراسیمگی! ۔۔۔ محمد یوسف علی خان عزیزؔ 

بلوچوں کی بیداری اور سرمایہ داروں کی سراسیمگی! ۔۔۔ محمد یوسف علی خان عزیزؔ 

بلوچوں کی بیداری اور سرمایہ داروں کی سراسیمگی!۔
(از: سالنامہ’’ بلوچستان ‘‘کراچی
16جنوری 1939 صفحہ 16 . 17)
فیضی احسنت ازیں عشق کہ دوراں امروز!
گرم دار دزتو ہنگامہِ رسوائی را!۔

چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔ شب ہائے ظلمت میں رعدوبرق کی ہیبت سے اہل وطن مرگ آور بستروں میں منہ چھپائے لرزہ براندام تھے۔ اگر ایک طرف باطل اپنے طاغوتی سازو سامان سے افناء حق کا تہیہ کئے ہوئے میدانِ کار زار کو گرمار ہاتھا۔ تودوسری طرف سے مدعیانِ خدمتِ حق سپرڈالے اپنی نجات اقرارِ باطل پرستی میں سمجھ رہے تھے۔ ہمتیں محدود، احساس مفقود،بے غیرتی کو غیرت ، بزدلی کو شجاعت، بغاوت اللہ کو اطاعت، رذالت کو شرافت سمجھا جاتا تھا۔ ہونٹوں پر اگر اللہ کا نام تھا تو عملاًاغراض وابا طیل ہی مسجود رہ گئے تھے ۔ نسبی سسٹم کے بنائے ہوئے رہنمایانِ قوم کے نزدیک اسلام اور قوم صرف ایک ذریعہ رہ گیا تھا اپنی عزت وجاہ کے حصول کا ،اور بس!
الغرض اس دورِفتنہ و فساد میں کسی اللہ کے بندے کے لیے اس زمینِ خوش آئین میں رہنانا ممکن ہوگیا تھا ۔ صحیح ترالفاظ میں یہ کہ جرمِ حیات ایک نا قابلِ عفو فساد تھا اور فساد حیات افناء کے لیے اقتدار و استبداد کے کار خانے سے تراشے ہوئے تمام بت مکمل خود مختار تھے۔ حسنِ فطرت روپوش ، گرمیِ عشق ماند اور خاموش، لذتِ حسن سے آنکھیں محروم ، عقلِ سلیم معدوم۔ با ایں ہمہ اسباب یاس ، قانونِ قدرت کے انقلاب پر اٹل اعتقادرکھنے والے اس زوال میں کمال ، جمود میں حرکت، موت میں حیات کی علامت کا دفینہ مستور دیکھتے اور اس امید پر جیتے تھے کہ :
بڑھاہے چاند گھٹ گھٹ بڑھی سے موج ہٹ ہٹ کر
اسی انداز سے ہوگا عروج احیائے ملت کا!
قومی ادبار اور قومی زوال کا زمانہ عین عنفوانِ شباب پر تھا کہ زمانہ نے پلٹاکھایا ۔ صدیوں کی خفتہ اور مسحور قوم ‘‘اس شبِ تاراور زمانہِ ’’ملازمتہ البیوت ‘‘میں ایک ایسی خواب شکن انگڑائی لے کر اُٹھی ،جس کی توقع کم از کم اس قدر قلیل عرصہ میں نہ تھی۔
کہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ اغراض و ہوس ، مداہنت وباطل پرستی کے سلاسل کو توڑنے کے لیے ایک کارخانہ آہنگری کا ہتھوڑا لے کر اُٹھتا ہے اور گن گن کر ایک ایک کڑی کو بتدریج توڑدیتا ہے، اور یا ،ایک زبردست اور باطل شکن ہاتھ بلند ہوتا ہے اور پوری قوت سے ایک ہی جھٹکے میں تمام کڑیوں کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے ۔ اربابِ بینش اور اصحابِ بصائر پر واضح ہے کہ یہاں کے اوہام و رسومات کے پرستار بلوچوں کے خر من باطل پرستی کو جلانے کے لیے کسی دیا سلائی یاتیل کی ضرورت نہ پڑی بلکہ ایک بجلی تھی جو اُٹھی ، چمکی اور گری۔ خرمنِ اباطیل کو گردن موڑ کر دیکھتا ہوں تو اب خاک کا ایک ڈھیر معلوم ہورہاہے۔ تاریخ، زمانہ اور واقعاتِ اسلام اس پر شاہد ہیں کہ ہر ایسے دورِ بیداری اور ایامِ روشنی میں باطل انسانوں کے تین گروہ چلے آئے ہیں:پہلا تو وہ جس کے متعلق فرقانِ عظیم میں ارشاد ہے:
ختم اللہ علی قلوبھم وعلےٰ سمعھم وعلیٰ ابصارھم غشاوۃ۔
دوسرا وہ گروہ جس نے ہمیشہ جماعتِ خدامِ حق کو نشانہِ استہزا بنایا ہے جن کے لیے ارشاد ایزدی ہے :
قالو ا انومن کما اٰمن السفھاء الا انھم ھم السفھاء ولکن لایعلمون
تیسرا وہ جس کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی کہ
واذا لقُوالذین اٰمنو قالو اٰمنا واذاخلو االی شیا طینھم قالوا ا نا معکم انما نحن مستھزؤن
یہ گروہ اُلو کی مانند اندھیرے ہی کو ابناراج سمجھ کر خورشید کی چمک سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اس گروہ صِنال نے ہمیشہ باطل کا ساتھ دیا ہے ۔ممکن ہے وہ پیروانِ حق کوگمراہ سمجھتے ہوں اور اپنے مسلک وطریق کو عین وصداقت۔ مگر اس کا فیصلہ آج نہیں کل ہونیوالا ہے
فتربصو احتی یاتی اللہ بامرہ
مقامِ حمد وثنا وموقعِ فخر ومباہات ہے کہ بلوچ اور بلوچستانی بھی جاگے۔ نہ صرف بستروں پر اللہ کا نام جپنے کے لیے ،بلکہ میدانِ عمل میں آئے ہیں۔ اور ایک ایسے عزمِ کا مل اور یقینِ واثق کے ساتھ آئے ہیں جس کا اعتراف خود قوائے باطلہ کو بھی ہے،اگر چہ اس کا اعتراف و اظہا دبی زبان سے کیا جارہا ہے۔ نیشنلزم بلکہ اس سے بھی اعلیٰ وارفع تخیل یعنی حقیقی اسلام ازم( جس کی وسعت میں قومی، وطنی ، نسلی ، لسانی معتقدات سے سب خواب پریشان ہو کر رہ جاتے ہیں اور جس کا معیار انسانیتِ کا مل کاحصول اور نوعِ انسان میں اتحادویگانگت کی روح پھیلانا ہے) کی دلوں سے محوشد ہ یاد کو پھر دھرا نے کے لیے ایک جماعتِ حق کا پیشوا ہونا اور اپنے ہم مذہب وطنی رہنمایانِ قوم کی مخالفت اور حکومت کی شکوک افزا روش کے باوجود شرابِ عشق سے مست موانع ومہالک سے بے نیاز اپنے مسلک پر ثابت اور صراطِ مستقیم پر چلا جانااگر کوئی دلفریب حقیقت رکھتے ہیں ، تو میں مستقبل کے لیے پر امیدہوں کہ انشاء اللہ یہ سہرا بلوچوں ہی کے سر پر ہوگا ۔
عام بیداری کا جو دیکھا تھا خوا ب ا سلام نے
اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ!۔

ایک عام غلط فہمی!۔
بلوچوں اور بلوچستانیوں میں نہ صرف بلکہ سندھ پنجاب میں بھی یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور میں کہوں گاکہ اس پروپیگنڈے کی اشاعت کی ذمہ داری زیادہ تر حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ بدنصیب بلوچوں پر مسلط شدہ سردارانِ قوم آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں شرکت نہیں کرتے۔ اور اس لیے کانفرنس کو قومی حمایت حاصل نہیں ۔اس کی صفائی میں کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔ مجھے صرف اس قدر عرض کرنا مقصود ہے کہ یقیناًاس پروپیگنڈے کی اہمیت بڑھ جاتی اگر ہم’’ آل انڈیا بلوچ سردار کانفرنس ‘‘کے انعقاد کا اعلان کرتے ۔ جب کہ یہ بلوچوں اور بلوچستانیوں کی عام کانفرنس تھی اور اس میں سردار وغریب کی شیطانی تقسیم کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی ۔ اور جس میں ہمارے غریب ومتوسط طبقہ کے غیور اور بیدار بلوچ نہایت والہانہ شوق وذوق سے شرکت فرما رہے ہیں تو سردار صاحبان کی عدم شرکت کو(جوو اللہ اعلم کن پیچ درپیچ مصالح پر مبنی ہے )کیوں کانفرنس کی ناکامیابی کہا جارہا ہے ۔ جب کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ یہ اور اس قسم کا نامزد طبقہ اصلاحی ، وطنی تحریکوں سے ہمیشہ کنارہ کش اور روپوش رہتا ہے اور صداقت کے پلیٹ فارم کو ہمیشہ غریبوں نے ہی سجائے رکھا ہے ،امرا کے لیے تو حق لاحول کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پس ان کی شرکت اور عدم شرکت کو دلیل، کامیابی اور ناکامیابی سمجھنا انتہا کی بدبختی وجہالت نہیں تو کیا ہے؟
غریب اور سفید پوش بلوچ اور بلوچستانیوں کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اس قومی اجتماع کو حقیقی معنوں میں کامیاب کرنے کا عزم کر کے اُٹھیں جس طرح وہ اس وقت تک اٹھ چکے ہیں، اور معاندینِ حق کے اس غلط پروپیگنڈے سے قطعاً اثر پذیر نہ ہوں کہ اس کے نتائج گورنمنٹ کے ساتھ تصادم کی صورت میں نمودار ہوں گے۔ ہمارے مقاصد بالکل صاف اور واضح ہیں اور گورنمنٹ کے ذمہ دار افسران کو متعدد بار اپنے مقاصد سے آگاہ کیا جاچکا ہے اور اس وقت تک انہیں ہمارے مقاصد سے عملاً کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہونا چاہیے جب کہ گورنمنٹ کی مخالفت کا کوئی سوال ابھی تک یہاں زیر بحث اور پیش نظر نہیں ۔
یاایھاالذین امنو اصبروا و صابرواور ابطوا والقوا اللہ لعلکم تفلحون
چو موج خیز بہ یم جادوانہ مے آویز
کرانہ مے طلبی بے خبر کرانہ کجا است!

آپ کی عظمتِ رفتہ کا نوحہ خوان
محمد یوسف علی خان (عزیزؔ )بلوچ

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *