Home » شیرانی رلی » غزل  ۔۔۔ یاسین ضمیر

غزل  ۔۔۔ یاسین ضمیر

سانس لیتے ہوئے ڈر جاتے ہو حد کرتے ہو
سانس رکتی ہے تو مر جاتے ہو حد کرتے ہو

جب بھی آتے ہو تو خوشبو کی طرح آتے ہو
پھر ہواؤں میں بکھر جاتے ہو حد کرتے ہو

تم تو ویسے ہی ستاروں سے حسیں ہو لیکن
اس پہ تم اور سنور جاتے ہو حد کرتے ہو

بن کے بادل تو چلے آتے ہو صحرا کی طرف
پھر بنا برسے گزر جاتے ہو حد کرتے ہو

گرتے قطرے کہیں ہونٹوں کو نہ چھولیں ٹھہرو
ایسی بارش میں بھی گھر جاتے ہو حد کرتے ہو

اب جو نکلے ہو تو آنکھوں سے تعلق کیسا
یونہی! پلکوں پہ ٹھہر جاتے ہو حد کرتے ہو

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *