Home » شیرانی رلی » اویس اسدی کی نظمیں

اویس اسدی کی نظمیں

خِرَد کو فیصلہ کرنا نہیں آتا
یہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کو سمجھا رہا ہے دیر سے کچھ
مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا
اِسے عادت ہے بس اندھے بھروسے
اور بلا چون و چراں تقلید کرنے کی

اور اُسے سود و زیاں کا،
رشتہ و پیوند کا بھی پاس رکھنا ہے

سو دونوں اپنی اپنی ضد پہ قائم ہیں
بھلا اب کو ن اس گُتھی کو سلجھائے

جنوں ناپید ہوتا جا رہا ہے
اور خِرَد کو فیصلہ کرنا نہیں آتا

’’شامِ وصال‘‘

بیٹھو۔۔۔
کہاں چلنا ہے کھانے کے لئے۔۔۔ ؟
اُف یہ ٹریفک جام۔۔۔
اتنا شور۔۔۔
تم اپنی side کا شیشہ چڑھا لو۔۔۔
خدا را Tape بند کر دو۔۔۔
لو۔۔۔!
اب کسی کا فون آ دھمکا۔۔۔
تمھارا فون بھی بجنے لگاہے۔۔۔
اُف خدایا۔۔۔ !!!
یہ خاموشی کہاں پر مر گئی ہے
مسلسل شورُ روحوں میں سرائیت کر گیا ہے۔۔۔
مری جاں تم بھی کتنا بولتی ہو۔۔۔
پلیز تھوڑی دیر توخا موش ہو جاؤ۔۔۔

مجھے لگتا ہے
مجھ کو تم سے ملنے سے زیادہ
خامشی درکار تھی شاید۔۔۔

Email

میں تیری خواب پرَوَر آنکھ کے قرباں
سنا ہے تُو گذِشتہ تین راتوں سے نہیں سوئی
مری جاں
نیند اگر Email ہو سکتی
اسی لمحے
تجھے میں بھیج دیتا
اپنی پوری زندگی کی نیند
اور سپنے

جانے کتنی مُدّت سے

جانے کتنی مدت سے
وہ نظر نہیں اُٹھی
جو نظر نہ اُٹھے تو
لاکھ سورجوں سے بھی
روشنی نہیں ہوتی

فکر سے تکلُم کا
لفظ سے معانی کا
معنی سے جذبوں کا
ہاتھ سے صناعی کا
اور قلم سیاہی کا
ربط ٹوٹ جاتا ہے
شاعری نہیں ہوتی

اُس نظر کی ڈوری نے
موتیوں کی یہ مالا
اس طرح پروئی ہے
جس طرح ستارے ہیں
بے ستوں خلاؤں میں
جس طرح سے بادل ہیں
بے ڈگر فضاؤں میں

اُس نظر کی ڈوری نے
بے مراد کشتی کو
ساحلوں سے باندھا ہے
بے یقین رستوں کو
منزِلوں سے باندھا ہے

وہ نظر نہ اُٹھے تو
بے چراغ رستوں میں
روشنی نہیں ہوتی
چاند کے تصرُّف میں
چاندنی نہیں ہوتی
آنکھ کے مقدر میں
خواب تو کُجا صاحب
نیند بھی نہیں ہوتی

وہ نظر نہ اُٹھے تو
ساعتیں گزرتی ہیں
زندگی نہیں ہوتی

جانے کتنی مدت سے
وہ نظر نہیں اُٹھی

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *