Home » حال حوال » پوہ زانت ۔۔۔ قلا خا ن خروٹی

پوہ زانت ۔۔۔ قلا خا ن خروٹی

ادب اور ادیب پر قدرت نے بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے ۔وہ یہ کہ زندگی جیسی گنجلک اور متنوع شے کو سمجھا اور سمجھایا جائے۔ اسی ذمہ داری کو نبھانے سے درکار ذہنی بلوغت اور روادا ری کا بیل بڑھو تری پاسکتا ہے اور پھر انہی سے امن وآشتی اور بھائی چارے کے کونپل پھوٹ سکتے ہیں۔ یہ یقیناًاسی ذہنی بلوغت کی کمی ہے کہ انسان پہلے کی طرح پُر امن نہیں رہا۔ ورنہ تو انسان نے دنیا میں رہتے ہوئے ہر طرح کے نسخے آزمائے ،کبھی سرد جنگ کے خاتمے تک امن کی اُمید ملتوی کرتا رہا اور کبھی عالمگیریت کے پروان چڑھنے تک انتظار کرتا رہا ، کبھی ثقافتوں کے ادغام کی کوشش کی اور کبھی نیشنل سٹیٹ کی بات کی مگر کشمکش اور جنگ وجدل مزید پیچیدہ ہوتے گئے۔ اور اب تو سوئے قسمت کہ آج کے قاتل کو یہ معلوم نہیں کہ مقتول کا قصور کیا ہے ۔
ا ن گتھیوں کو سلجھانے کا ذمہ اب ادب اور ادیب کے کاندھوں پر ہے اس لیے کہ مسائل کے ادارک ہی اُنہیں حل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو آج کے انسان سے یہ گلہ بھی مناسب نہیں کہ وہ کیونکر غلط سوچتا ہے اس لیے کہ تربیت اور بالیدگی کا جوذمہ بالغ اذہان نے نبھانا تھا اُس میں بلاشبہ کوتاہی ہوچکی ہے ۔ علی بن عثمان ہجویری نے ، اسی لیے فرمایا تھا کہ انسان سے اُن کے عقل وشعور سے بڑھ کر مہذب رہنے کا تقاضا کرنا بھی بے انصافی ہے۔
سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی چھتری تلے پوہ زانت ماہانہ نشست اسی ذہنی بے راہروی کی آگ کو بجھانے کی ایک کوشش ہے ۔ 23جولائی 2017کی یہ نشست پہلے کی طرح بہت بھرپور رہی ۔ شرکاء کی حاضری پہلے سے بہت بہتر رہی ۔ صدارت کے فرائض جناب عابد میر نے انجام دیے جبکہ مہمان خصوصی کی کرسی پر علی کمیل قزلباش صاحب متمکن رہے ۔ اُن کے بارے میں یہ کہنا بالکل مناسب ہوگا کہ غم ہائے روز گارنے گوکہ ہمیں اُن سے دور رکھا مگر ایک دیرینہ ساتھی کے طور پر اُن کی محبت فاصلوں سے یکسر بے نیاز رہی ۔ اُنہیں تصنع سے نفرت ہے ، بے ساختگی اور والہانہ پن اُن کی فطرت میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہے۔جس کا اظہار اُن کے نشست وبرخاست سے بخوبی ہوتا ہے۔
نشست کا آغاز ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو کے مضمون سے ہوا جو کہ جون ایلیا ء کے قداور ادبی شخصیت سے متعلق تھا۔ مضمون کا زیادہ تر حصہ جون ایلیا ء کے خاندانی پس منظر اور ذاتی زندگی سے بحث پر مبنی تھا۔ اُن کے کلام سے اُن اشعار اور مضامین کا حوالہ دیاگیا جو اُن کی نجی زندگی سے جھلکتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول جون ایلیا ء کی تمام تر شاعری آمد کی پیداوار ہے ۔ اُنہیں لفظوں پر قدرت حاصل تھی اور خیالات کا نزول اُن پر برابری جاری رہا۔ ڈاکٹر صاحب کے مضمون پر کوئی خاص تنقید سامنے نہ آئی حالانکہ اس کے کچھ گوشوں پر اگر مزید روشنی ڈال دی جاتی تو نہ صرف مضمون بلکہ جون ایلیا ء کے Comprehensionمیں زیادہ مدد ملتی مثلاً یہ کہ
۔1۔ وجودیت کے باوجود جون ایلیاء رشتوں کے تقدس کا حامی تھا ؟
۔2۔کیا آورد یا اپنے کلام کو بار بار تول کر بولنے والوں کی کوئی وقعت نہیں ؟
۔3۔کیا یاسیت کا غلبہ اُن کے کلام پر حاوی نہیں؟
اس طرح کے کچھ اور سوالات بھی جیسے جون ایلیاء نے کلاس سسٹم کو کیسے لیا۔ سیاسی پس منظر اور پیش منظر وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد پروفیسر جاوید اختر نے گل بنگلزئی صاحب سے متعلق مضمون پڑھا ۔ شرکاء نے بہت غور سے سُنا کہ گل صاحب کے ادبی سفر کا آغاز دراصل آزات جمالدینی کے رسالے ’’بلوچی‘‘ سے ہوا۔ اس میں گل صاحب کے پیش بہا مضامین چھیتے رہے۔اُنہوں نے بتایا کہ گل صاحب نے ہمیشہ سلیس زبان میں بات کی اور اسی لیے وہ عوام سے آخر تک جُڑا رہا۔ شاید اس لیے بھی کہ اُن کا تعلق ماما عبداللہ جان جمالدینی سے رہا جو کہ اَدب اور انسان کے مابین فاصلوں کا قائل نہیں تھا۔گل صاحب نے شاعری کی اور ’’کاوش ‘‘کے نام سے اُن کا مجموعہ کلام سراہا گیا۔ اس کے علاوہ ناول ’’دریہو‘‘ اور افسانوں کا ذکر بھی کیا جو صاحب مضمون نے تھوڑی بہت تجزیاتی پہلوؤں کے ساتھ پیش کیا۔ پروفیسر جاوید اختر نے گل صاحب کے تراجم کا حوالہ بھی دیا جن کی فہرست بہت لمبی ہے۔ مضمون بہت زیادہ جامع اور گل صاحب کے فن وشخصیت پر محیط تھا۔
محترمہ عابدہ رحمن نے ایک تازہ افسانہ بعنوان ’’مکڑی کاجالا‘‘پڑھا ۔افسانہ سننے کے بعد کسی حد تک مگر بہت کم افسانے کی فنی پہلوؤں پر بات ہوئی مگر زیادہ تر اِن کے مختلف حصوں کو سوشل اور سیاسی مضامین سے جوڑا گیا۔ محترم عابد میرنے کہانی میں Gapکی طرف اشارہ کیا کہ مرکزی کردار جب کا ونٹر کی طرف اُٹھا تو یہ نہیں بتایا کہ اُس کے بعد کیا ہوا۔ یہاں کہانی دولخت ہوجاتی ہے اُنہوں نے کہا کہ کہانی میں ایک تاثر اور وحدت ہی کہانی کو کامیاب اور متاثر کن بناسکتی ہے۔غلام نبی ساجد نے افسانے کو سراہا مگر اختصار کو اس کی کمزوری سمجھتے ہوئے کہا کہ کہانی کے کرداروں کو واقعات کو بہت عجلت میں نبھایا گیا ہے۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہانی کے punch lineمکڑی کے جالے اور چروا ہے سے جڑی روایت پر بات کی ۔ ڈاکٹر بیرم غوری نے journalisticاَدبی تحریروں پر بات کی۔ اس کہانی میں چونکہ آٹھ اگست کا واقعہ بیان کیا گیا تھا اس خبر کو ادبی پیرائے میں اسطرح کہانی کی شکل دنیا کہ خبر صحیح معنوں میں ادب بن جائے ، اس طرح کے تحریروں کا تقاضا ہے ۔
محترم علی کمیل قزلباش نے موضوع کی وسعت اور مختصر پیرائے میں اس کے بیان پر بات کی۔
اس کے بعد فضل فیضی نے بلوچی افسانہ پیش کی۔ اور آخر میں ڈاکٹر منیر رئیسانی نے غزل پیش کیا۔ جس کے بارے میں فضل فیضی صاحب نے کہا کہ ایک ہی موضوع کو ہر شعر میں بیان کرنا دراصل نظمیہ غزل کی علامت ہے ۔ جبکہ ڈاکٹر بیرم غوری نے اُن سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اینٹی غزل ہی ہے اس لیے کہ غزل میں روایتی موضوعات سے ہٹ کر جن مضامین کو چھیڑاگیا ہے اُن سے یہ اینٹی غزل بن جاتا ہے۔ بہر حال اُن کے انداز بیان اور خیالات کو بہت سراہا گیا۔
آخر میں علی کمیل قزلباش نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سنگت نے بہت ترقی کی ہے اور یہ بھی کہ سنگتوں کی کمی اُنہیں اسلام آباد میں برابر محسوس ہوتی رہی۔ محترم عابد میر نے سب کا شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ آئندہ نشستوں میں سنگت کی کتابوں کے بارے میں بات ہوگئی اور شرکاء کا حاصل مطالعہ share کیا جائیگا۔

Spread the love

Check Also

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *