Home » قصہ » ماہیِ بے آب! ۔۔۔۔عابدہ رحمان

ماہیِ بے آب! ۔۔۔۔عابدہ رحمان

سورج ڈوب رہا تھا ۔ اس کی نارنجی شعاعیں مغربی افق پر پھیل گئی تھیں ۔ کچھ ہی فاصلے پرمچھیروں کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں بے مہار ڈولتی چلی جا رہی تھیں۔ دور سمندر میں ٹرالر بھیانک آواز کے ساتھ رواں دواں تھے۔
امیر بخش جانے کب سے سُتا ہوا چہرہ لیے ساحل پرایک بڑے پتھر پر بیٹھا نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا کہ اسے کھانسی شروع ہو گئی ۔ کچھ دن سے اسے کھانسی سانس لینے نہیں دے رہی تھی ۔ ایک دورہ تھا کھانسی کا جو پڑ جاتا اور وہ کھانس کھانس کر ادھ موا ہو جاتا۔
کھانسی رکی تو وہ پتھر پر ہاتھ رکھتا ہوا جو اٹھا تو اُکھڑے ناخنوں اور زخمی انگلیوں سے درد کی ایک ٹیس اٹھی اور اس کے منہ سے ایک سسکی نکلی۔ سمندری ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور امیر بخش ہاتھوں اور اپنی روح سے رِستے لہو کو لیے اس طویل خاموشی کی ہم راہی میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا گلی کے نکڑ پر پہنچ گیا ۔
اس نے گلو پنواڑی سے پان لے کر منہ میں رکھا اور آبادی کی پرلی جانب ساحل پر سے ہوتا ہوا استاد غفور کے پاس چلا گیا۔
اُس طرف اگر سمندر کے شور کا ایک عجیب سا سکوت تھا تو ساحل کے اِس حصے میں یہ عالم تھا کہ ایک ٹھکا ٹھک، دھپا دھپ اور ایک ہا ہو کار مچی ہوئی تھی۔ ٹیپ ریکارڈر پرایک طرف اگربلوچی میں گانے اونچی آواز میں بج رہے تھے تو دوسری طرف انڈین گانوں کا شور تھا۔جگہ جگہ نا مکمل کشتیوں کے ڈھانچے کھڑے تھے اور کہیں کہیں مکمل کشتیوں کے رنگ روغن ہو رہے تھے۔ استاد غفور بھی رنگ اور برش ہاتھوں میں تھامے ایک بڑی کشتی کے رنگ و روغن میں مصروف تھا۔
’’ اڑے واہ! آج تو ہمارا یار بادشاہ آیا ہے۔ یہاں کا راستہ کیسے بھول گئے آج۔‘‘ غفورے نے پان کی پِیک سے ریت کو رنگین کرتے ہوئے خوشی سے نعرہ لگایا اور اٹھ کر امیر بخش کو گلے لگایا۔ امیر بخش خاموشی سے اس کے قریب بیٹھ گیا۔
’’ اڑے نورل، بھاگ کر آؤ مجھے وہ رنگ پکڑاؤ اور پھر میرے یار کے لیے ایک کڑک چائے بنوا کر لاؤ۔‘‘ غفورے کے منہ سے پان کے سرخ چھینٹے اڑ رہے تھے۔ نورل،’’ابھی آیا استاد‘‘ کہتے ہوئے سیٹیاں بجاتے اور بکھرے سامان کو پھلانگتے ہوئے اسے رنگ کا ڈبہ پکڑا کر اسی تیزی سے چائے لینے دوڑا۔
یہ سارا شور بھی جب امیر بخش کی خاموشی کی دیوار کو نہ توڑ سکا تو غفور نے پوچھا ،’’ کام کیسا چل رہا ہے؟ خیر و تنگ تو نہیں کرتا؟‘‘
’’ خیرو نے مجھے کام سے نکال دیا ہے! ایک ہفتہ ہو گیا۔‘‘ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد امیر بخش نے ریت پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچتے ہوئے جواب دیا۔
’’لیکن کیوں؟ اور ایک ہفتے سے تو نے بتایا بھی نہیں ۔‘‘۔ غفور پریشان ہو گیا۔
’’ خیرو جب خیرجان بن جاتے ہیں ۔۔۔ بڑی کشتیوں اور کشتیوں سے ٹرالروں کے مالک بن جاتے ہیں ۔۔۔ توان سے کون پوچھ سکتا ہے کہ ہمیں کیوں نکالا! وہ مالک ہے اور میں چھوٹا ماہی گیر۔۔۔ نکال دیا بس!‘‘ امیر بخش پان تھوکتے ہوئے بولا۔
ان کے مابین کچھ دیر خاموشی رہی ، فضا میں ٹھکا ٹھک ، دھپا دھپ کی صوتی آواز گونجتی رہی۔ نورا چائے لے کر ا سی طرح ناچتا دوڑتا آیا۔
’’ جال پھینکا تھا؟‘‘۔غفور نے چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہاں۔۔۔! سوائے چند ماہی کے کچھ نہیں ملا۔‘‘ امیر بخش نے اداسی سے جواب دیا ۔
’’ یہ ٹرالر جب سے آئے ہیں ہمارے بچوں کے منہ کا نوالا چھین رہے ہیں ۔۔۔ مچھی کی پوری نسل ختم ہو رہی ہے۔‘‘ غفور نے پیالی زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔
امیر بخش نے گرم گرم چائے اندر انڈیلی اور اٹھتے ہو ئے تلخ لہجے میں کہا ،’’ اگر ہم کچھ کر سکتے ہیں تو بتاؤ۔۔۔سارا دن محنت کر کے بھی ہم نہ مزدور بن سکے اور نہ مالک۔‘‘
خدا حافظ کیے بغیر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا، گھر کی جانب چل پڑا۔ بیماری، بے روزگاری اور پریشانیوں نے اسے خاصا چڑ چڑا کر دیا تھا۔ گھر کی چوکھٹ پار کرتے ہی دروازے کے پاس رکھی بالٹی سے جو ٹھوکر لگی تو و ہ منہ ہی منہ میں زبیدہ خاتون کو بے نقط سناتا ہوا اور جھونپڑی نما کمرے کے ایک کونے میں چادر سے منہ اورسر لپیٹ کر، چپ چاپ لیٹ گیا۔
سوتاجاگتا ، کروٹیں بدلتاوہ رات کے تیسرے پہر اٹھا۔ منہ پر پانی کا چھپاکا مارا ۔ بچے اور زبیدہ خاتون کمرے کے دروازے کے قریب زرد چہرے لیے سوئے ہوئے تھے ۔ وہ کچھ دیر ویر ان ، ویران چہروں کو تکتا رہا ۔ پھرنکل کر ساحل کی طرف چل پڑا ،جہاں شام گئے وہ جال پھینک آیا تھا۔
علی احمد بھی جال کھینچنے آیا تھا ۔اسے دیکھ کر اونچی آواز میں بولا؛’’علاقے کی حالت روز بروز عجیب ہوتی چلی جا رہی ہے، امیر بخش۔ ٹرالروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور مچھیرے اپنے بچوں کی روزی روٹی کے لیے مالکوں کی جھڑکیاں سنتے سنتے تھک گئے ہیں ۔ محنت سے جو مچھلی ہم پکڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں،ہفتوں ہفتوں وہ کھلے ساحل پر پڑی رہتی ہے اور اسے نہیں اٹھایا جاتا ۔ چار دن پہلے بھی میں تنگ آکر اونے پونے بیچ آیا ۔‘‘
لیکن اتنے طویل تبصرے کے جواب میں امیر بخش صرف ہوں ہاں ہی کرتا رہ گیا اور خاموشی سے جال کھینچنے لگا ۔جس میں چند گنی چُنی مچھلیاں تھیں۔ امیر بخش پرایک نہ ختم ہونے والا کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا ۔
مئی کا مہینہ شروع ہو چکا تھا اور سمندر کا مزاج بدل رہا تھا ۔ ہر وقت ایک بھونچال کا سا عالم رہتا تھا۔ پورا سال خاموشی سے برداشت کرتے رہنے کے بعد سمندر مئی ،جون میں اپنے غصے کا اظہار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جوں جوں موسم کی گرمی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ،ساتھ ہی ساتھ سمندر بپھرتا چلا جاتا ہے، یوں کہ اپنے قریب کسی کو آنے نہیں دیتا۔
امیر بخش کے اندر بھی برداشت ختم ہوتی چلی جا رہی تھی ۔بات بات پر لڑنا جھگڑنا اس کا مزاج بنتا چلا جا رہا تھا۔اب تو اس نے پان کے ساتھ ساتھ شراب پینا بھی شروع کر دیا تھا۔ سمندر ہی کی طرح وہ بھی کسی کو پاس آنے نہیں دیتا۔ ہاں سمندر کے ساتھ اس کی یاری اب بھی قائم رہی۔ ادھورے سے لباس اور پھٹی چپل پہنے وہ گھنٹوں سمندر کے کنارے گزار دیتا۔
اُس دن ملک کی اعلیٰ شخصیات مرکزی ساحل پر جمع ہو رہی تھیں۔ کسی بڑے منصوبے کا افتتاح متوقع تھا۔ تمام ماہی گیروں کو ساحل پر آنے سے روک دیا گیا۔ البتہ بڑے بڑے ٹرالروں کی ٹرالنگ جاری رہی۔ امیر بخش خالی ہاتھ لوٹ آیا۔ دن بھر پان کھاتا، سگریٹ پیتا اور دوستوں کے مشترکہ اڈے پہ شراب پیتا رہا۔ شام گئے پہاڑ کی چوٹی پہ غم بھلانے کو بیٹھا تودُور سے ٹرالرسے نکلتی مچھلیوں کے ڈھیر دیکھ کر اسے لگا کہ وہ ان مچھلیوں میں سے ہی ایک ہے، جسے سمندر سے دور کر کے تڑپا تڑپا کر مارا جا رہا ہے۔ امیر بخش کو ٹرالر سے نفرت آمیز کراہت محسوس ہونے لگی۔ سرور آمیز خمار میں جھومتا جھامتا جب وہ گھر پہنچا تو کل کا فیصلہ کر چکا تھا۔
اگلے روز اس نے جال ایک طرف پھینکا ، ٹرالر کے ٹھیکیدار کے پاس جا پہنچا اور درخواست کی کہ اسے ٹرالر پر نوکری دے دے۔ ٹھیکیدار نے پہلے تو لیت ولعل سے کام لیا کہ روایتی جال کی نسبت ٹرالنگ تکنیکی کام ہے۔ لیکن پھر امیربخش کی مجبوری اور منت زاری کے پیش نظر اسے ٹرالر کے لیے تیل اور مچھلیاں ڈھونے کے کام پہ رکھ لیا۔امیربخش نے فرطِ مسرت سے اُس کے پاؤں چھو لیے۔ اُسی روز کام شروع کر دیا۔ مگر دوسرے ہی دن یہ قیامت خیز واقعہ ہو گیا۔
صبح سویرے ٹرالر وں کو سمندر میں جانے سے پہلے تیل ڈالا جا رہا تھا۔ امیر بخش تیل ڈھونے والے مزدوروں میں شامل تھا۔ وہ تیل کا بڑا کنستر لے کر اندر گیاتو کچھ ہی دیر بعد ٹرالر کے اندر سے آگ بھڑک اٹھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ نے انجن کو چھوا، اور ٹرالر کے اندر دھماکے ہونا شروع ہو گئے۔ اندر امیر بخش اکیلا تھا۔ باقی مزدور انجن کے حصے سے باہر تھے۔ چھلانگیں لگاتے، بھاگتے کودتے، باہر کو لپکے۔ کچھ زخمی بھی ہوئے۔ لیکن امیر بخش کو بچانے کی کوئی مہلت نہ ملی۔ ٹرالر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ساحل پر بکھر چکا تھا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ امیر بخش کیوں کہ ناتجربہ کار تھا، اس لیے اس کی کسی غلطی سے تیل میں آگ لگ گئی ہو گی ، جس نے آگ پکڑ لی اور اسے نکلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔
سمندر جو اس کایار تھا ، اس کا رازداں تھا، جو سب کے دکھ بڑی خاموشی سے اپنے اندر جذب کرتا تھاصرف و ہی جانتا تھا کہ امیر بخش نے ٹرالر کے انجن کے حصے میں جا کر تیل وہیں تختے پر ڈالا، ماچس نکالی اور مجنونانہ انداز میں خود کلامی کرتے ہوئے تیلی پھینک دی کہ ’’تم ہی میرے بچوں کے قاتل ہو، تم نے ہی ہمارا رزق چھینا ہے، تمہیں مرنا ہو گا، میں آج تمہیں ختم کر کے رہوں گا‘‘۔لیکن اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ انجن کس تیزی سے آگ پکڑے گا اور وہ خود بھی آگ کی ان لپٹوں کی نذر ہو جائے گا۔ دکھ اور غم، ظلم و نا انصافی نے اس پر اس قدر غلبہ کر لیا تھا کہ اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اس کے بچوں کا قاتل، ان کا رزق چھیننے والا وہ ٹرالر نہیں بلکہ وہ نظام ہے جس نے ہمیشہ غریبوں کا مزاق اڑایا۔
سمندر نے اُس کے ادھ جلے جسم کو اپنی لہروں کی بانہوں میں لے لیا، اور ٹرالر کے جلتے ٹکڑوں کے ساتھ، دور بہا لے گیا!!

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *