Home » قصہ » نیا سال، پرانا کال ۔۔۔ علی بابا / ننگرچنا

نیا سال، پرانا کال ۔۔۔ علی بابا / ننگرچنا

کہتے ہیں کہ آج سے سینکڑوں برس پہلے اس دھرتی پر سونا وطن کے نا م سے ایک بہت ہی خوشحال اورشادوآباد ملک ہوا کرتا تھا۔ کئی ندیاں اسے سیراب کیا کرتیں، جن میں سب سے بڑی ندی کا نام سوشوما تھا۔ یہ ندی سال کے بارہ ماہ اونچے پہاڑوں سے دھاڑتی گرجتی بہتی رہتی ۔ پورے ملک کی زراعت کا دارومدار اسی ندی پر تھا اور سونا وطن کی دھرتی سداا ناج سے بھرے کھیتوں، میوہ دار درختوں، چاندی ایسی کپاس اور شہدسے بھری رہتی تھی۔
ایک مرتبہ اس ملک پر اؤدھ نامی ایک آریائی نسل کے راجا نے حملہ کیا اور وہاں کے جملہ راجاؤں کو مات دے کر، قتل کرکے ، وہاں کا مالک بن بیٹھا۔ اس نے جنگ جیتنے کے بعد سونا وطن کے دیسی لوگوں سے مال وملکیت اور جاگیریں چھین کراپنے آریا سپاہیوں کو دیں اور وہ آریا لوک کا جتنا خیرخواہ تھا اتنا ہی دیسی لوگوں کا دشمن۔ اس کا نام سنتے ہی بچارے فرزندانِ وطن کی سانس رکنے لگتی ۔وہ کچھ اس طرح تھا، جس طرح بکریوں کے ریوڑ میں کوئی بھیڑیا ! جسے چاہے چیرڈالے ، جسے چاہے کھاجائے ۔ نہ کوئی داد نہ فریاد۔ بے داد نگری میں کون آواز اٹھائے ۔۔۔۔
راجا اؤدھ ہمیشہ وہاں کے لوگوں میں سے کسی چاپلوس، لالچی آدمی کو اپنا وزیراعظم چُن لیاکرتا، کیوں کہ وہ اس ملک کے لوگوں کی زبان نہیں سمجھتا تھا، اس لیے خوف کا شکار ہوتا کہ یہاں کے لوگ کوئی بغاوت نہ کربیٹھیں۔ اس لیے مذکورہ وزیر اسے ملکی حالات و خطرات سے آگاہ کرتارہتا ،لیکن اگر کوئی وزیر دیسی لوگوں میں مقبول ہوجاتااورعوام کی بھلائی کے کام کرتا ، اور مہاراجا کو اس پرتھوڑا سا بھی شک ہوجاتا تو اسے وزارت سے ہٹاکر بندی خانہ میں ڈال دیتا تھا۔
اسی زمانہ میں سونا وطن کے قریب جھرنا نامی ایک گمنام جزیرہ تھا، جس کا اؤدھ کو کچھ پتا نہ تھا۔ سوشوما ندی سال کے بارہ مہینے جھرنا جزیرہ پر گاگر کی طرح الٹتی رہتی اور جھرنا کے میدان اور صحرا، سب سیراب ہو جاتے ۔ دریا کے مٹیالے پانیوں پر اتنی اچھی فصلیں ہواکرتیں کہ لاکھوں لوگ اس پر اپناپیٹ پالتے ۔ یہی سبب تھا کہ یہاں کے لوگ جھرنا جزیرہ کے اس حصہ کولکھی پرگنہ کے نام سے پکارتے تھے ۔ سوشوما ندی سال بھرانہیں آباد رکھتی ۔ وہ لوگ ہر سال فصل کی کٹائی کے دنوں میں سوشوما ندی کے کنارے پر جمع ہوتے اور مل کر جشن مناتے ۔ سب مل کر انواع و اقسام کے کھانے پکاتے ۔ عورتیں اچھے خوبصورت کپڑے پہن کر جمالو اور چھیج نامی گیت گایا کرتیں ۔ لڑکیاں بالیاں مل کر گدا کھیلا کرتیں۔بچے درختوں میں جھولے باندھ کر جھولتے ۔ جوان مرد آپس میں کشتیاں اوردیگر کھیل کھیلتے ۔ہرطرف سکھ، خوشی اور میلہ کا سماں ہوتا ….
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دن جب لکھی پرگنہ کے باشندے اپنے جنت نظیر کھیتوں میں کٹائی کا تہوار منا رہے تھے ، تب وہاں سے مہاراجا اؤدھ کے مہامنتری نیبھ رائے اردلی کا شکار کی نیت سے گذر ہوا اور وہاں کے اناج کے پہاڑ کی مانند اونچے ڈھیر اور سرسبز کھیت دیکھ کراس کے دماغ کی چولیں ڈھیلی ہوگئیں۔لہٰذا اس نے بیٹھ کر غورکیا کہ اس وزارت پر کیا بھروسہ، پتہ نہیں کب مہاراجا اؤدھ کی لات پڑجائے اور کرسی چلی جائے ، کیوں نہ ابھی ،جب مہاراجا کے پاس میری بات چلتی ہے ،تب دیگروزرا کی طرح میں بھی فائدہ اٹھاؤں۔ وہ اچک کر گھوڑے پرسوار ہوا، باگیں پکڑیں اور شکارکا خیال چھوڑ کرنیا جال بننے لگا اور مہا راجا کے حضور پہنچ کر اس کے پیروں میں گرگیا۔اس نے سجدہ کرنے کے بعد اپنی جفاکشیاں اور وفاداریاں دہرائیں اور پاؤں چوم کر کہا:
’’اے جہاں پناہ ! اے سوناوطن کے خاوند ! لکھی پرگنہ کی دھرتی بڑی بھاگوان ہے ،لیکن وہاں کے لوگ بڑے کاہل اور نکمے ہیں۔ وہاں کی پوری زمین ویران پڑی ہے ۔ اگر وہ زمین مجھے مل جائے تومیں سرکار کو دگنی لگان دوں گا۔‘‘
مہاراجا چونکہ اس پر بہت مہربان تھا ، کیوں کہ اِس نے راجا کو کئی خطرات سے آگاہ کیا تھا ،اس لیے کھڑے کھڑے کاغذپر مہرلگا کرحوالہ کیا کہ لکھی پرگنہ کی زمین تمہاری ہوئی، جاؤ، جاکرکھیتی کرو۔ اردلی وزیر نے مہاراجا کے پیروں میں گرکر لمبے لمبے سجدے بھینٹ کیے اور مہاراجا کے پاؤں چوم کر لکھی دیہہ پر قبضہ جمانے کے لیے تیزی کے ساتھ روانہ ہوا۔
دوسرے دن صبحِ صادق کے وقت لکھی دیہہ کے کسان اور بزگر، مال مویشیوں والے ، آٹے کی چکیوں اور ماٹیوں میں مدھانیوں کی آوازوں پر آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے اور اپنی شاندار بھینسوں کو چارہ مل کر دینے لگے، تب اپنی زمینوں کے قریب سرکاری افسروں کی ٹولیاں دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے ۔ ان میں سے بیسیوں مرد نکلے اور آگے بڑھ کر ان سے حال احوال لینے گئے اور انہیں خوش آمدید کہہ کہا:
’’ جناب ! خیرسے آنا ہوا ؟‘‘
تب ایک افسرنے ٹیڑھی آنکھ کرکے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
’’ ابے اندھوں کی اولادو ! دیکھتے نہیں ہو، ہم زمین کی پیمائش کررہے ہیں۔‘‘ افسر کا چِلانا بھی تو اللہ کی آواز ہوتی ہے ۔ بچارے تمام دیہاتی سہم گئے، لیکن ایک بوڑھے مرد نے ہمت کرکے کہا، ’’ لیکن ، صاحب ! یہ زمینیں تو پہلے سے پیمائش شدہ ہیں ۔ یہ ازل سے ہماری ہیں ۔ ہم یہاں پر ویدکال سے بھی پہلے آباد ہیں۔‘‘
’’ تیرے باپ دادا کی ہیں۔ خبردار جو کسی رانڈ کے بچے نے کائیں کائیں کی۔ چیرپھاڑکر چودہ ٹکڑے کرکے نمک ڈالوں گا۔ ابے اونٹ کے بچو ! یہ زمین مہاراجا اؤدھ نے اپنے مہا منتری نیبھ رائے اردلی کو عنایت کی ہے ۔ کل سورج نکلنے سے پہلے تم لوگ یہاں سے اپنے گھربار، چھپرجھونپڑے اٹھاکر کسی اورجگہ جاکر رہو۔ کچھ پلے پڑا یا پلواؤں کولہو میں۔!‘‘
پھر کیا تھا ، لوگوں کے پیروں تلے زمیں نکل گئی۔ طاقت ہی درست ہوتی ہے ۔ جبرکو جی بسم اللہ۔کون کچھ کہہ سکتا ہے ! اور کوئی چارہ نہ دیکھ کر سب اپنے گوگا پیر کی طرف بھاگے ۔
گوگاپیر ان کا سب سے بڑادیوتا اور پیشوا تھا۔ یہ غریب لوگ ہمیشہ اسے خراج دیا کرتے تھے ، کیوں کہ خشک سالی اور مصیبت کے ایسے مواقع پر ہمیشہ گوگا پیر انہیں کام آتا تھا۔ اس لیے سب نے مل کر گوگا پیر کے گھرکی کنڈی کھڑکائی۔ گوگاپیر نے اپنی لال انگارہ آنکھیں اوپراٹھائیں اور داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’بابا ! دیوتا بھلا ئی ہی کریں گے ۔ یہ افسرلوگ ، ان کا نہ کوئی پیر نہ مرشد، ان پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ میری اپنی پانچ سَوجریب زمین پیمائشِ سرکاری میں آگئی ہے ۔ لیکن ، بابا ! زبردست کا ٹھینگا سَرپر۔ پہاڑ سے ٹکرائیں گے تو اپنا سر پھاڑیں گے ، پہاڑ کو کچھ نہیں ہوگا۔ جلدبازی کرکے کوئی شورغوغا مت کرنا ، میں بیٹھا ہوں نا ! سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ گوگا پیرنے انہیں بہت تسلیاں دیں، لیکن کہتے ہیں کمزور کو صبر کہاں ؟ ان بچاروں سے مزید برداشت نہ ہوسکا۔ لیکن اس وقت خاموشی اختیارکرکے گھرچلے آئے ۔
اسی پرگنہ میں سرویچ نامی ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا۔ وہ جتنا بدن کا مضبوط اور شکیل اور دلیر تھا ، اتنا ہی عقل کا اکابر اور باتوں کا جوہری تھا۔ یہی سبب تھا کہ لکھی پرگنہ کے لوگ اسے دَہے سَر ( دس سروں والا) کے نام سے پکارتے اور صرف گوگاپیر کے علاوہ سب اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ۔ اس لڑکے کو جب اس واقعہ کا پتہ چلا ، تب اس نے جزیرہ جھرنا کے تمام بڑوں بزرگوں کو جمع کرکے پنچایت بلائی اور ہزاروں لوگوں کے ہجوم میں مچان پرچڑھ کربلند آواز میں کہا: ’’ بھائیو ! یہ کھیت اور کھلیان ازل سے ہمارے ہیں۔ ویدکال سے بھی پہلے ، ہمارے باپ داداؤں نے اس میدان کو آباد کیا اور صدیوں کی مسلسل محنت سے ہم نے ہل چلا کر، بندباندھ کر اسے کھیتی کے لائق بنایا ہے ۔ اس زمین پر صرف ہمارا ہی حق ہے ۔ یہ زمین ہماری جیجل ماں ہے ۔ ہمارا ایمان، ہماری عزت، ہمارا سب کچھ ہے ۔ کیا ہم یہ سب کچھ غیروں کے ہاتھ میں دے دیں گے !کبھی نہیں۔ آپ میں سے کوئی بھی اس طرح نہیں کرے گا۔ بھائیو ! اس سے پہلے زمین ہم سے ہماری بانہوں کا بَل ، محنت اور ہمارا پسینہ مانگتی تھی، لیکن آج ہماری زمین ہمارا خون مانگ رہی ہے اور ہم وہ بھی دیں گے اور ہم اس کی رکھوالی لاٹھیوں، چھروں، خنجروں اور کلہاڑیوں سے کریں گے ۔بھائیو ! واعدہ کرو کہ ظلم ، جبر اور ناانصافی کا مقابلہ کریں گے ، ہم مریں گے لیکن اپنی زمین دوسروں کے حوالہ نہیں کریں گے ۔‘‘ اس پر لوگوں میں اتنا جوش اور جذبہ پیدا ہوا کہ سب نے اپنی لاٹھیاں اور کلہاڑیاں بلند کرلیں اور کہنے لگے ، ” ہم مرنے مارنے کے لیے تیارہیں۔ کشت وخون کے بغیر اپنے کھیت کسی اور کو نہیں دیں گے ۔”
گوگاپیر کے کانوں تک اس بات کی بھنک پہنچ گئی، اس لیے وہ اپنے آپ کو ڈولی میں اٹھواکر پنچایت میں پہنچ گیا اور ڈولی سے ہی ہانپتے اور چلم کی طرح گُڑگڑاتے ہوئے کہا،’’بابا ! کچھ دھیرج کرو، جس طرح کی ہوا چلے، آدمی کو ویسا چلن اختیار کرنا چاہیے ۔ ہمارا مقابلہ پہاڑ سے ہے ۔ لڑکوں بالوں کے کہنے پر جلدباز نہ بنو۔ یہ آج کے چھوکرے تمہارا سب کچھ گنوائیں گے ۔ راجا آخرراجا ہے اور پرجا آخر پرجا ہے ۔ میری بھی تو پانچ سَو جریب زمین اس پیمائش میں آگئی ہے ۔‘‘
گوگاپیر کی اس بات پر نوجوان دَہے سَرکو غصہ آگیا، تو اس نے للکار کہا، ’’گوگاپیر ! زبان چلانا بند کرو، تمہیں کیا خبر کہ زمین کس کو کہتے ہیں ؟ تم نے کھیتیاں بانہوں کے بَل کی محنت سے حاصل کی ہوں یا ہل چلا کر پسینہ بہایاہو تو تجھے کچھ پتہ بھی چلے ۔ تم سدا بھیک کے ٹکڑوں پر پلے ہو اورتم نے غریب مریدوں کے دان کے چار پیسوں سے کھیت بنائے ہیں۔ تجھے اس کی قدرو قیمت کا اندازہ کیا !؟‘‘دَہے سَر کی اس بات پر گوگاپیر کو آگ لگ گئی۔ اس کا چہرہ لال بھبوکاہوگیا۔ وہ ہانپتا کانپتا پنچایت سے اٹھ کھڑا ہوا اور جاتے جاتے کہتا گیا ،’’’ تم اورتمہارے بال بچے کولہومیں پلوائے جائیں گے ۔ یہ لفنگے چھورے تمہیں کھائی میں گرائیں گے ۔ دیوتاؤں کے منافقوں کا حال برا ہونا ہے ۔ ‘‘ لوگوں میں سے کوئی بھی کسی بھی طرح گوگاپیر کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے پنچایت سے لوٹنے کے بعد سب لوگ اس کے دروازے کا پھیرا لگاتے گئے ۔
گوگا پیر ہوا کا رخ جان کر کہنے لگا، ’’ آپ لوگ بے وقوف ہیں ۔ یہ کم عقل لڑکے تمہاری جان جوکھوں میں ڈالیں گے ، تمہیں مروائیں گے ۔ کیا ان دوٹکے کے چھوکروں کی عزت مجھ سے بھی بڑھ کر ہے !؟ اس نے تم لوگوں کے سامنے کیا کیا بَڑ ہانکی۔ تم میں سے کسی نے اسے کچھ بھی کہا ؟ آخرکو میں تم لوگوں کا دیوتا ہوں، جو کروں گا میں کروں گا۔ آدمی کو ایسی چال چلنی چاہیے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ میری مہاراجا اؤدھ کی دربار میں اچھی رسائی ہے ۔ آپ سب مل کر مجھے ایک ایک طلائی سکہ دیں تو میں کچھ امیروکبیر ساتھ لے کر مہاراجا اؤدھ کی دربار میں آپ کے حقوق اور انصاف کے لیے لڑوں ۔‘‘ لوگوں کو گوگاپیر کا یہ مشورہ بہت اچھا لگا، اس لیے ہرایک نے ایک ایک سونا سکہ لاکر دیا اور صبح سویرے گوگاپیر طلائی سکوں بھری تھیلی بغل میں داب کر، بہترین بیلوں والی گاڑی میں بیٹھ کرسونا وطن کی راج دھانی سون میانی کو روانہ ہوا اور وہاں جاکر مہاراجا اؤدھ کے مہا منتری نیبھ رائے اردلی سے ملاقات کی اور ہاتھ باندھ کر، لمبے لمبے سجدے بھینٹ کرکے کہا ،’’شالا ! تمہارا بخت بلند ہووے ۔ میں پرگنہ لکھی کا بڑا زمیندار گوگا پیر ہوں۔ جزیرہ جھرنا کے تمام لوگ میری ڈوری میں یوں بندھے ہوئے ہیں، جیسے جوگی کی مرلی سے ناگ ! لیکن صرف ایک لڑکے کا منہ کالا ہو، سارا کام خراب کیے بیٹھا ہے ۔ زہربھری پھونکیں ماررہا ہے اوراس نے لوگوں کو اتنا بھڑکا دیا ہے کہ سب بلم بھالے اٹھائے ہوئے ہیں، جو بھی جائے گا ، گاجرمولی کی طرح کاٹا جائے گا۔ ہنگامہ ہوگا،بڑی بغاوت ہوگی اور گھمسان کا رَن پڑے گا۔ لیکن اگر اس لڑکے کی زبان بند کردی جائے تو پھر باقی لوگ میری مرلی میں قابوہیں۔‘‘اور پھر گوگا پیر نے اردلی وزیر کے کان میں کچھ کھُسر پھسر کی۔ اس پھسپھساہٹ پر اردلی وزیر پر ٹھنڈک پڑ گئی اور وہ ایکدم اس کا مرید بن گیا اور اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اس کی زمین کو ہاتھ تک نہیں لگائے گااوراسے سرکار سے مزید زمین دلوائے گا۔ اس دن اردلی وزیر نے گوگاپیر کو بہت ساقورمہ، کباب اور پلاؤ کھلا کر ، بڑے تحفے تحائف دے کر لکھی پرگنہ روانہ کیا۔
اگلے دن مہاراجا کے افسر اور سپاہی سونے کے پھلو ں والے ہل، لکڑی کے گھوڑے اور فولادی لغام لیے لکھی دیہہ پہنچے تو ہزاروں دیہاتی بلم، لاٹھیاں اور کلہاڑیاں سنبھالے دیکھ کر کچھ سہم گئے ۔ نوجوان لڑکے دَہے سَر نے سب کی پیشوائی کرکے، سرکاری ہرکاروں کا سامنا کرتے ہوئے کہا، ’’اس دھرتی پر صرف ہمارا ہی حق ہے ۔ ہم جیتے جی اپنا یہ حق کسی اور کو نہیں دیں گے ۔ تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہماری زمینوں پر قبضہ کرو۔‘‘
اہل کاروں کے سرغنہ کو دَہے سَر کی اس بات پر بہت غصہ آیا،لیکن اس نے سُر کو سمجھتے ہوئے عاجزی اختیارکی اور کہا، ’’ سرکار نامدار آپ کے حقوق ہڑپ نہیں کرنا چاہتی، دراصل یہ سرزمین سونے کی کان ہے ، سونے کی کان۔ اور تم لوگ صرف اپنی بیویوں کو بغل میں داب کر، نیم کی ٹھنڈی چھاؤں میں سونا جانتے ہو۔ یہ زمین تم لوگوں سے نہیں سنبھالی جائے گی۔ ہم ہل کے طلائی پھلوں ، لکڑی کے گھوڑوں اور فولادی لغاموں سے کھیتوں میں ہل چلائیں گے اور اس کے بدلہ میں سرکار تم لوگوں کو دوسری زمین دے گی۔‘‘ اہل کار کی اس بات پر نوجوان دَہے سَرکی ہنسی چھوٹ گئی اور اس نے بڑے رعب سے کہا، ’’اے اہلکار ! یہ انہونی ہے ۔ کل کو تم لوگ کہوگے کہ تمہاری بیویاں بہت سُندر ہیں،لیکن تم ہوکہ ان کے پاؤں میں جُوتی تک پہنا نہیں سکتے ۔ تم انہیں سنبھال نہیں سکتے ۔ ہم انہیں ملکہ کہہ کر پکاریں گے اور قلوپطرہ کی طرح محلوں میں بڑے طمطراق سے رکھیں گے اور انہیں زربفت اور کمخواب کے لباس پہنائیں گے ۔ یہ بیویاں ہمیں دے دو،ہم ان کے عوض تمہیں دوسری بیویاں دیں گے ۔ اے افسر ! یہ کبھی نہیں ہوگا۔ یہ ادلہ بدلی ہم سے با لکل نہیں ہوگی۔ خبردار جو کسی نے ہمارے کھیتوں میں ہل چلانے کی کوشش کی ، ہم اس کے ہاتھ قلم کردیں گے ۔ یہ دھرتی ازل سے ابد تک ہماری ہے ۔ ہے کسی میں ہمت تو میدان میں آجائے ؟‘‘بڑے افسر نے اپنے اردگرد ہزاروں لوگوں کے ہجوم کی طرف دیکھا، جو مرنے مارنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ گھمسان کی جنگ ہوگی، جس میں اس کا ایک بھی سپاہی بچ نہیں پائے گا،اس لیے باز آگیا۔
اس دن لکھی پرگنہ والوں نے اپنے نوجوان رہنما دَہے سَرکو خوشی کے مارے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ اس رات لوگوں نے بڑاجشن منایا۔ دَہے سَرکی جوان بیوی کامنی سکھیوں سہیلیوں کے درمیان خوب جچ رہی تھی ۔ مرد وزن دَہے سَرکی تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے ۔
آہستہ آہستہ جشن کے چراغ مدہم پڑتے چلے گئے ۔ لکھی پرگنہ کے کمی کاسبی ، ہاری ناری ، مرد وخواتین، جو مسلسل دوراتوں سے جنگ کے خوف کے سبب سو نہیں سکے تھے ، وہ آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے رخصت ہوکر اپنے گھروں میں سکھ کی نیند سوئے تھے ۔ چاروں اور نیند کی دیوی انڈے سیتی مرغی کی طرح اپنے اندھیرے پنکھ پھیلائے بیٹھی تھی ۔ ہرطرف رات کا راج تھا۔
اس رات جب ہر آدمی اپنی کٹیا میں نیند کے مزے لوٹ رہا تھا ،تب گاؤں میں اؤدھ کا لشکر گھس آیا۔ ان کی رہنمائی گوگاپیر کررہاتھا، جو انہیں لے کرنوجوان رہنما دَہے سَر کے دروازے پر گیا۔ دَہے سَر اپنے چھوٹے سے گھرمیں سوچوں کے بھنورمیں پھنسا ہواتھا۔ اس کا ایک سالہ بیٹا اور نوجوان بیوی پنگھوڑے میں سوئے ، نیندمیں مسکرارہے تھے ۔ دَہے سَر خود چوکی پربیٹھا، کلک ہاتھ میں تھامے کاغذات پر جھکا ہوا تھا کہ باہر سے گوگاپیر کی آواز آئی۔ گوگاپیر کی آواز پر دَہے سَر جیسے ہی باہر آیا تو اؤدھ کے لشکر نے اس کا منہ بند کرکے اسے اٹھالیا اور مضبوطی سے کس کر باندھ لیا۔
صبح سویرے یہ خبر جنگل کی آگ کی مانندپوری بستی میں پھیل گئی کہ اؤدھ کے لشکر نے دَہے سَرکو گرفتارکرلیا ہے ، اور اسے ہزاروں لوگوں کے سامنے کھلے عام پھانسی دی جائے گی۔ پورے لکھی پرگنہ کے لوگ بچے ،عورتیں، مرد، سب بپھر گئے ، اور انہوں نے اپنے نوجوان رہنما کو بچانے کے لیے خنجر،کٹاریں اور کلہاڑیاں اٹھالیں، لیکن گوگاپیر اُن کے آگے آیا اور کہا،’’ خبردار ! اگر کسی نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا، سب کا حشر دَہے سَر جیسا ہوگا۔ کھیت کھلیان تو جائیں گے ہی اوپر سے اپنی جانیں بھی گنواؤگے ۔ تمہارے بچوں بالکوں کی لاشیں مہاراجا اؤدھ کے شکاری کتّے کھائیں گے ۔ راجا آخرراجا اور پرجا آخر پرجا ہے ۔ اس لفنگے کے پیچھے لگ کر تم اپنا سَر ہی بھینٹ کروگے ۔ مجھ پر اعتبار کرو۔میں آپ کا گوگاپیر ہوں۔ میں آپ کو آپ کی زمینیں واپس دلواؤں گا اور اہلکاروں سے کہہ کر دَہے سَر کی پھانسی کی سزا بھی بخشواؤں گا۔ لیکن اس شرط پرکہ آپ میں سے کوئی بھی ایک لفظ تک منہ سے نہیں نکالے گا، اس میں سرکارکا، میرا ، دَہے سَرکا اور آپ کا ، سب کا بھلا ہے ۔‘‘ سب لوگوں نے اپنی کلہاڑیاں اور ڈنڈے نیچے کرلیے اور اپنے دیوتا کی بات ماننے کے لیے تیار ہوگئے ، جو ان سب کے فائدے کی بات تھی۔
اس دن لکھی پرگنہ کے کھیتوں کے درمیان نوجوان دَہے سَر کو کھڑاکرکے ، اسے پھانسی کا حکم سنایا گیا۔
سب مرد وزن دیہاتی اس کی جان بخشی کے لیے گوگاپیر کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ گوگاپیر نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ سب لوگوں کی طرف دیکھا اور ریشم ایسی نرم اور سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ، اؤدھ کے افسرِ بالا سے کہا،’’ قبلا ! میرا مشورہ تو یہ ہے کہ پھانسی دینے سے زیادہ اچھا یہ ہے کہ اس لڑکے کی زبان حلق سے کاٹ دی جائے تاکہ پھر کبھی کسی کو یوں بولنے کی ہمت نہ ہو۔‘‘
گوگاپیر کا یہ مشورہ افسرِاعلا کو بہت پسندآیا۔ اس نے ہزاروں لوگوں کے درمیان اٹھ کرکہا، ’’ ہم اس لڑکے کو پھانسی چڑھاتے، لیکن گوگاپیر کے مشورہ پر اس کی جان بخش رہے ہیں۔ اس نے عوام کو سرکار کے خلاف بھڑکایا تھا، اس لیے اس کی زبان حلق سے کاٹی جائے گی۔‘‘
اس بات پر دَہے سَر نے ایک چیخ بلند کرتے ہوئے کہا، ’’ ظالمو ! تمہیں بھگوان کا واسطہ ہے، میری زبان مت کاٹو، میری زبان انسان کے اندر کی آواز کی گونج ہے ۔ مجھے پھانسی دو، تلوارسے میراسَرتن سے الگ کردو، میرے ہاتھ پاؤں کاٹ دو، نیزوں کے وارکرکے میرے جسم کو چھلنی کردو؛ لیکن تمہیں قسم ہے دیوتاؤں کی میری زبان نہ کاٹو۔‘‘
لیکن اس کی آہ و بکاکسی نے نہیں سنی۔ گوگاپیر نے کہنی کے اشارے سے افسرکو اس کی زبان کاٹنے کا حکم دیا۔ چار موٹے تگڑے سپاہیوں نے حکم سنتے ہی نوجوان دَہے سَر کو چاروں شانے چت کرلیا اور اس کی گردن پر پاؤں دے کر اس کی زبان حلق سے کھینچ کر کاٹ ڈالی۔ اس کی چیخیں آسمان تک جا رہی تھیں اور اس کے منہ سے بہنے والے خون کی دھاروں نے لکھی پرگنہ کی زمین کو سرخ کردیا۔ دَہے سَر کی نوجوان بیوی اپنے شوہرکا یہ حال دیکھ کرایک چیخ مارکر بیہوش ہوگئی۔ دَہے سَرکا چھوٹابیٹا خوف اور ڈر کے مارے آنکھیں کھولے باپ کو تڑپتا ہوا دیکھتا رہا۔ وہ اتنا ڈرگیا تھا کہ اس کے منہ سے کوئی آواز تک نکل نہ پائی۔ اپنے رہنما کا یہ حال دیکھ کر سب دیہاتیوں، مردوں اور عورتوں ، کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ گوگاپیر اپنی ریشمی داڑھی پر بڑی گمبھیرتا کے ساتھ ہاتھ پھیرکر اہل کاروں ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔
اس بات کو کئی زمانے گذرگئے ۔ زمانہ آج بھی اسی چال پرکھڑا ہے ۔ کہتے ہیں کہ سوشوما ندی آج تک سونا وطن کی سرزمین پر ایک تازہ بچہ جنمی ماں کی طرح چنگھاڑتی ہوئی جزیرہ جھرنا کی طرف دوڑتی ہے ، سب میدان اور صحرا جل تھل ہوجاتے ہیں۔
اؤدھ بھی ہے ، اردلی وزیر بھی ہے ، گوگاپیر بھی ہے ، وہی عوام بھی ہے اور دَہے سَر کی اولاد بھی ہے ، لیکن کہتے ہیں کہ اسی اؤدھ کال (زمانہ) سے آج تک دَہے سَر کی اولاد کی آواز بند ہوگئی ہے اور سب دَہے سَر نسل درنسل گونگے پیدا ہوتے ہیں، اگر کوئی دَہے سَر جوش میں آکر کچھ بولتا بھی ہے تو بچاری عوام اس گونگے کی زبان نہیں سمجھ پاتی۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *