خیمہ برف میں
حدت عشق سے
پر سکو ں ہو سکوں
اسکی قربت ملے
ایسی شدت ملے
کیسی خواہش ہے یہ
کیسی بارش ہے یہ
جو بجھاتی نہیں
پیاس کو آ گ کو
خیمہ برف میں
تیری قربت بھی ہے
میری وحشت بھی ہے
ماورا خوف سے
دیر تک ,دور تک
جاتے رستوں پہ چلنے کی
حسرت بھی ہے
ساتھ ہوتے ہوے بھی
جدائی کا دکھ
نارسائی کا دکھ
کیسی قربت ہے یہ
جس میں فرقت بھی ہے
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...