Home » شیرانی رلی » سمجھوتہ ۔۔۔ نسیم سید

سمجھوتہ ۔۔۔ نسیم سید

سمجھوتے کے دالانوں کی
ہر چیز سجل سی ہوتی ہے
ہر طاق سجا سا لگتا ہے
اک فرض مسلسل کی دھن پر
وہ پیر تھرکتے رہتے ہیں
ہاتھوں کی لکیروں میں لکھے
’’دو بول‘‘
کھنکتے رہتے ہیں
ہمت کی چٹختی شاخوں سے
کچے دن توڑے جاتے ہیں
اور پال لگائی جاتی ہے
راتوں کے بان کے بستر پر
تہذیب کے گونگے جسموں کی
سنجاب بچھائی جاتی ہے
ہر چیز سجل لگتی ہے مگر
اک ہرا بھرا شاداب بدن
دیکھے میں گھنیرا لگتا ہے
اور اندر گلتا جاتا ہے
گردش میں لہو کی تہہ در تہہ
اک ریت اُترتی جاتی ہے
اور سلوٹ سلوٹ سانسوں میں
بے رحم گھنے سنّاٹے کی
اک کائی سی جمتی جاتی ہے
سمجھوتے کے
چکنے اُجلے دالانوں میں
اک جسم دھرا رہ جاتا ہے
اور اندر اندر اک دیمک
ساری رونق کھا جاتی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *