Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ منیر فیاض

غزل ۔۔۔ منیر فیاض

چاند کے ساتھ گئی جھیل کی تابانی بھی
سسکیاں لینے لگے رات کے زندانی بھی

شہرِ معلوم کی گلیوں سے گزرتے لوگو
دھیان میں رکھنا کوئی لمحہء امکانی بھی

ساتھ چلتی ہے کسی منزلِ گم نام کی اور
گام دو گام مری بے سروسامانی بھی

آئنہ وار مجھے دیکھے چلی جاتی ہے
تیری تصویر سے لپٹی ہوئی حیرانی بھی

ہجر زادوں سے ترے خواب کی دولت بھی گئی
سو گئی عرصہء تعبیر کی ارزانی بھی

تہہ میں پوشیدہ خزانوں کی خبر دیتا ہے
تیرے دریاؤں کا ٹھہراؤ بھی، طغیانی بھی

رہتی ہے میرے تعاقب میں ہوا بھی فیاض
آگ بھی میرا پتہ پوچھتی ہے، پانی بھی

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *