Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ سید خورشید افروز

غزل ۔۔۔ سید خورشید افروز

پر بلندی پہ اڑا ڈالے ہوا نے میرے
کھولے ادراک کے درایک خطا نے میرے
بے گناہوں کے لہو کا مجھے لینا ہے حساب
تگ و دو میں ہیں عدو حوصلے ڈھانے میرے
سخت حیران ہوں واپس پلٹ آئے ہیں کیوں؟
کچھ نشانے پہ لگے تو تھے نشانے میرے
رات ہے، سپنے ہیں، سناّٹا ہے، تنہائی ہے
اور یادوں کے خزانے ہیں سرہانے میرے
آگئے تم ہوئی مسمار انا کی دیوار
گلے شکوے تھے فقط حیلے بہانے میرے
آگے بڑھتا تو خدا جانے میں کیا کر جاتا
کہ قدم روک دئیے آپ حیا نے میرے
میں بگولا ہوں بکھرنا ہی ہے منزل میری
رہتے ہیں دوش ہوا پر ہی ٹھکانے میرے
میرے ہمسائے کو جینے نہیں دیتی یہ فکر
کہ نہ آجائے کوئی جوت جگانے میرے
وہ ترا ایک تبسم تھا اندھیروں میں کرن
جان چلی جائے نہ یہ قرض چکانے میرے
یہ الگ بات نہ جاگا کبھی احساس مرا
ورنہ کافی تھے مجھے آئینہ خانے میرے
کبھی اک وقت کی روٹی جو مجھے دے نہ سکے
حاکمِ وقت کے بیکار خزانے میرے
زیست ہے تیری عنایت مرا مولا لیکن
سانسوں کے بوجھ سے شل ہوگئے شانے میرے
کبھی افروزؔ میں اس کا تو سزا وارانہ تھا
سرخرو کر دیا خود آپ خدا نے میرے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *