Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ بلال اسود

غزل ۔۔۔ بلال اسود

نیل آنکھوں کی چمک کیسے مجھے کھنچتی ہے
یہ تیرے خواب تلک کیسے مجھے کھینچتی ہے

گر تو دِکھ جائے تو مڑ مڑ کے تجھے دیکھتا ہوں
تیری اک اور جَھلک کیسے مجھے کھینچتی ہے

دوڑ پڑتا ہوں میں ہر بار سرابوں کی طرف
یہ تمنّا کی دھنَک کیسے مجھے کھینچتی ہے

پاک رخسار نے چکّھا نہ کبھی غم کا نمک
تیری نم ہوتی پلک کیسے مجھے کھینچتی ہے

میں سرِ شام ہی اس سمت نکل جاتا ہوں
ایک سنسان سڑک کیسے مجھے کھینچتی ہے

میرا دل چاہتا ہے جاکے بکھر جاؤں وہاں
تیرگی سمتِ فلک کیسے مجھے کھینچتی ہے

کس قدر کھینچتا ہوں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
پھر وہ رشتے کی لچک کیسے مجھے کھینچتی ہے

موت کے ہاتھ میں ہیں میری طنابیں اسودؔ
دل یہ جاتا ہے دھڑک کیسے مجھے کھینچتی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *