Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ فیضان ہاشمی

غزل ۔۔۔ فیضان ہاشمی

کوئی انا ہے جو دیوار سمجھی جا رہی ہے
وگرنہ چھت تو ستونوں پہ رکھی جا رہی ہے

دماغ گھوم گیا ٹیلی فون رکھتے ہی
ہر ایک چیز جگہ سے سرکتی جا رہی ہے

یہی گناہ میں صدیوں سے کرتا آ رہا ہوں
جو آج کل تمہیں نیکی بتائی جا رہی ہے

میں اک گلاس زمیں پر گرانا چاہتا ہوں
ہمارے بیچ کی خاموشی بڑھتی جا رہی ہے

بنا ہوا تھا یہیں تک سو رک گیا فٹ پاتھ
مگر یہ سرخ سی دیوار چلتی جا رہی ہے

یہ میری روح ہے ململ کے کپڑے جیسی روح
جو خاردار زمانے پہ کھینچی جا رہی ہے

میں جانتا ہوں تمھیں کس جگہ پہنچنا ہے
یہاں سے اگلی سڑک ہے جو سیدھی جا رہی ہے

میں اس زمین پہ زہرہ سے دیکھا جا رہا ہوں
وہ کون ہے جو مرے ساتھ دیکھی جا رہی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *