اندازِ تکلم ہے جْدا اس لئے سب سے
کہہ لیتا ہے تُو بات پرانی نئے ڈھب سے
اِس عِشق سے پہلے تو فقط عْمر گْزاری
جینے کا تو آغاز ہی میں نے کِیا اب سے
مانا ہے ترے ہجر کو جس دن سے مسیحا
مجھ وصل گزیدہ نے شفا پائی ہے تب سے
انفاس تلک درد کے قبضے میں ہیں ایسے
آزاد نہ ہو پائے ہے اِک آہ بھی لب سے
زِچ کرنے پہ مائل ہے مْجھے اْس کی کریمی
یہ لوگ ڈراتے ہی رہے جس کے غضب سے
وہ رب ہے سو وہ بخش بھی دیتا ہے خطائیں
یہ میں ہوں مرے سامنے رہئے گا ادب سے
دیکھا نہ کوئی وقت سا صیّاد جہاں میں
تیر اس کے غضب کے ہیں اور اہداف عجب سے