Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ خمار میرزادہ

غزل ۔۔۔ خمار میرزادہ

ہو کے آئینہ مقابل بھی رہا رد , کہ نہیں
درمیاں آج بھی ہے ہجر کی سرحد کہ نہیں

دلبرا..! یونہی نہ تھی کفر پرستی دل کی
فتنہء صبحِ قیامت ہے ترا قد کہ نہیں

ہاں بتا , وہم سے کترائے ہوئے حسنِ یقیں۔۔۔!
ننگِ تحقیق ہوئی رسمِ اب و جد کہ نہیں

دل سے اس رشکِ چراغِ حرم و دیر کے بعد
ہے وہی وحشتِ تاریکیِ معبد کی نہیں

زندگی…! آج تلک میری تمنا گہ میں
تیرے کچھ کام بھی آئی ہے خوشامد کہ نہیں

حیرتیں آپ بھلا بیٹھی تھیں طے کر کے جنھیں
آئنہ خانوں میں رائج ہے وہ ابجد کہ نہیں

عشق میں کون مقابل تھا مرے , کس پہ کھلے
منصبِ قیس کی خواہاں ہے یہ مسند کہ نہیں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *