Home » کتاب پچار » کامن سینس ۔۔۔ عابدہ رحمان

کامن سینس ۔۔۔ عابدہ رحمان

’’ساری دنیا میرا گھر ہے اور انسانوں کی بہتری کے لیے کام کرنا میرا مذہب!‘‘
کتاب کا نام: کامن سینس
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 132
قیمت : 200 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
تھامس پین کا کتابچہ ’ کامن سینس‘ جسے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ترجمہ کیا ہے، پڑھتے ہوئے جان ایڈمز کی بات بالکل درست لگی کہ ’’ تھامس پین کے قلم کے بغیر جارج واشنگٹن کی تلوار بس یوں ہی ہوا میں لہراتی رہتی۔‘‘
تھامس پین ، ۲۹ جنوری ۱۷۳۷ میں پیدا ہونے والا یہ برطانوی امریکی آزادی کے لیے اپنے ہی ملک برطانیہ سے لڑ پڑا۔ امریکن عوام جو برطانیہ سے مصالحت کے تذبذب میں پڑے تھے ،پین نے انھیں اس حالت سے نکال کر ایک واضح راہ سجھائی۔ کامن سینس بلا شبہ تھامس پین کا ایک کارنامہ ہے جس میں آزادی اور پھر اس آزدی کے حصول کی جدوجہد ہے۔ امریکی عوام کو کامن سینس ہی نے Stream line کیا۔ انھیں ایک واضح منزل کی نشاندہی کی گئی جس کو پانے کے لیے امریکی عوام جت گئے۔
تھامس پین کا کہناتھا کہ صرف مفاد پرست، متعصب، کمزور لوگ مفاہمت کی بات کرتے ہیں جبکہ امریکہ کی برطانیہ سے مفاہمت میں کوئی فائدہ نہیں ،کیونکہ وہ صرف اپنا مفاد سوچتا ہے، امریکی عوام سے اسے کوئی محبت نہیں۔
تھامس پین کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ امریکہ برطانیہ سے مفاہمت کرے اور اس بات کا اظہار اس نے بار بار کتاب میں کیا کہ ظلم کے ساتھ مفاہمت کبھی ممکن ہی نہیں ہوتی ۔کیوں کہ کبھی بھی وہاں مفاہمت صحیح طو پر نہیں اگ سکتی جہاں مہلک نفرت کے زخم اس قدر گہرائی میں پہنچ چکے ہوں۔
امریکہ سے مفاہمت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ پین موروثی حق کے بھی سخت خلاف تھا ۔وہ کہتا تھا کہ ،’’ ایک اور بڑا فرق بھی ہے جس کے لیے کوئی فطری یا مذہبی سبب مقرر نہیں کیا جا سکتا، وہ ہے انسانوں کی بادشاہوں اور رعایا میں تقسیم۔ نر اور مادہ تو فطرت کے امتیاز ہیں ۔ اچھا اور برا تو آسمان کے دیے ہوئے امتیاز ہیں۔ مگر اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ دنیا میں انسانوں کی ایک نسل ( بادشاہوں کی) کس طرح بقیہ انسانوں سے اس قدر عالی مقام پر آئی اور ایک نئی نسل و نوع کی طرح ممتاز ہوئی۔ یہ تحقیق بھی ہونی چاہیے کہ آیا وہ بنی نوعِ انسان کے لیے خوشی کا وسیلہ ہیں یا دکھ اور بربادی کا۔‘‘
کامن سینس پڑھتے ہوئے یہ پتہ چلا کہ زمین کے مختلف گوشوں، مختلف ٹکڑوں پرمختلف زبانیں بولنے والے، انوکھے کلچر رکھنے والے لوگوں کے مسائل، دکھ، جدوجہد کس قدر ایک سے رہے ہیں، ایک سے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک ہی قصہ ہے جو ہر خطہِ زمین نے سنا اور سہا۔ اسی لیے ہر جگہ کی جدوجہدِ آزادی بھی کم و بیش ایک سا رخ اختیار کر کے اپنی منزل پاتی رہی ہیں۔
پین نے امریکہ کو ایک نئی سوچ دی اور ان کی جدوجہدِ آزادی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ ۴ جولائی ۱۸۷۶ کو آزادی کا اعلان ہوا۔
پین نے اپنا دوسرا پمفلٹ ’’امریکی بحران‘‘ کے نام سے لکھا کیوں کہ جارج واشنگٹن نے ساری جدوجہد، سب کچھ بھول کر سرمایہ دار طبقے کی خدمت شروع کر دی۔ پین نے بتایا کہ طبعی اور فکری آزادی ایک ایسا کاز ہوتی ہے جس میں آزادی خواہوں کو اگر شکست بھی ہو تب بھی یہ فاتح کو برباد کر دیتی ہے۔ اور پھر کہتا ہے کہ سماجی بیماری کا سماجی علاج ہی ہوا کرتا ہے۔
ہر انقلابی کی طرح تھامس پین بھی ایک آزاد روح کا مالک تھا، تب ہی وہ کسی قوم کا کسی دوسری قوم کو غلام بنانے کو ایک سنگین جرم گردانتا تھا۔
امریکی بحران کے علاوہ اس نے کچھ اور پمفلٹ عوامی بہتری ، خبروں کی موجودہ صورت،امن پر غور و فکر اور اس کے ممکنہ فوائد لکھے جس میں اس نے اس وقت کی خبروں پر تبصرے لکھے اور کہا کہ، یہ وہ زمانے ہیں جو انسانوں کی ارواح کی آزمائش کرتے ہیں، اور یہ کہ یہ پیغام ایک قوم سے دوسری قوم تک انتہائی خاموشی اور غیر محسوس انداز میں پہنچتا جائے گا۔
۱۷۸۳ میں برطانیہ اور امریکہ میں معاہدہ ہوا اور امریکہ مکمل طور پر آزاد ہوا۔ انقلاب جو اس کا پیشہ تھا اب امریکہ میں وہ بے پیشہ ہو گیا تھا۔ لہٰذا اس کی انقلابی روح جو دنیا کے دوسرے ممالک میں زنجیر بندھے ذہنوں جسموں کو آزادی دینے کو بے قرار تھی، فرانس کا رخ کیا، جہاں کسانوں کی بدحالی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ ان کے فیوڈل نظام کو مزید سہارا دینا نا ممکن ہوا۔
ایک اور کتابچہ انسان کے حقوق کے نام سے لکھا، جس میں اس نے بتایا کہ انسان کے فطری حقوق کے ساتھ ساتھ شہری حقوق بھی ہوتے ہیں اور اس کے فطری حقوق اس کے سارے شہری حقوق کی بنیاد ہیں اور یہ کہ ہر شہری حق، فطری حق سے نکلتا ہے۔
دنیا کے تمام انقلابیوں کی طرح پین بھی تشدد کے سخت خلاف تھا اور کہتا تھا کہ قتلِ عام پر مبنی تبدیلی انقلاب نہیں ہوتی۔پین نے’’دلیل کا زمانہ‘‘ میں حقِ رائے دہی یعنی ووٹ اور انسانی مساوات کا پرچار کیا اور شخصی حکومت کی زبردست مخالفت کی۔ اپنے پمفلٹ ’’ زرعی پیداوار‘‘ میں اس نے کہا کہ غربت دراصل تہذیب کی پیداوار ہے۔
ایک زبردست متحرک لیڈر جو ناصرف خود متحرک رہا بلکہ امریکہ اور فرانس کے عوام کو بھی ایک تحریک دی ۔ ایسے انسان جس کا ہزاروں مظلوم لوگوں پر قرض ہے، جس نے ساری عمر انسان اور انسانیت کی بات کی، ایک نہایت کسپرسی اور تکلیف دہ حالت میں ۸ جون ۱۸۰۹ کو ۷۳ سال کی عمر میں وفات پا گیا۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *