Home » شونگال » ویمنز مارچ آن واشنگٹن

ویمنز مارچ آن واشنگٹن

نیا سال ٹرمپ کا نہیں، انسانیت کا ہے۔
تیسری دنیا کے پسماندہ ترین گوشے بلوچستان میں انسانیت کی بقا و فنا کے فکرمیں غلطاں لوگوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک نا ترس نسل پرست، عورتوں کے خلاف تعصب پرست اورعورت سے بیزارشخص کو دنیا کے واحد طاقتور ترین ملک کے صدر کا حلف اٹھاتے دیکھا۔ بیس جنوری، اکیسویں صدی کی بہت بڑی ناکامیوں میں سے ایک کا دن تھا۔ انسانی تاریخ کی اب تک کی تمام حاصلات کے کھنڈر بنائے جانے کے خطرات صاف سامنے تھے۔ پورے الیکشن مہم کے دوران اپنے بیانات اور تقاریر میں وہ جو باتیں کرتا رہا تھا، اب اُس کی جیت اور حلف برداری میں اُن ساری آفات کا انسانوں پرگرپڑنے کی راہ صاف ہوگئی تھی۔ہر وہ چیز خطرے میں تھی جس پر زمین کے کسی گوشے پر موجود کوئی اچھا انسان ایمان رکھتا ہے۔
ہم اُس کی تقریر کے نقاط میں سے سب سے بڑا انسان دشمن نکتہ ڈھونڈنے میں مصروف ہی تھے کہ ہم نے اگلے ہی دن یعنی 21 جنوری کو انکار، اور، استرداد کا وہ طوفان دیکھا جو مردہ ترین روح کو بھی گل بہار کردے۔ ہم نے سی این این اور بی بی سی سے Women’s March on washington دیکھا۔ امریکہ کا ہر شہر اور قصبہ عورتوں کی قیادت میں اپنی آبادی کو سڑکوں اور گلیوں پہ اگل چکا تھا۔ اُس روز امریکہ کے مختلف شہروں میں کل 408 جلوس نکلے۔اورصرف واشنگٹن کے جلوس میں پانچ لاکھ عورتیں اور مرد تھے۔ عورتوں کی قیادت میں گلوبل سرمایہ داری کے خلاف اس ابھار میں چھوٹی چھوٹی سے لے کر بڑی بڑی تنظیموں تک سب شامل امریکی عورت کے ساتھ یک جہتی میں سارے براعظموں کے ممالک میں شریف انسانوں نے عظیم الشان جلوس نکالے ۔یوں امریکہ اور باقی دنیا میں اُس روز ’’ ویمنز مارچ‘‘ میں کل 673 جلوس نکلے، پرامن اور بھر پورجلوس۔ دنیا بھر کے اِن جلوسوں میں حاضرین کی تعداد چالیس لاکھ تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا احتجاج تھا۔
بارش اور سردی کے باوجود جمہوریت، انسانی حقوق، انسانی وقار اور انصاف اتنی بڑی تعداد میں انسانی صورت میں نمودار ہوئے کہ امریکہ جیسے مضبوط صدر سے لے کر بلوچستان میں سرکاری لیویز کے زور سے بنے معمولی سردار تک کی کرسیاں ہچکولے کھانے لگیں ۔ مقصد تھا: ’’ ہم اپنی نئی حکومت کو اُس کے اولین دن ہی ایک بولڈ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہوتے ہیں۔۔ پولیس مظالم کے خلاف، تولیدی حقوق کی حفاظت کے لیے ،LGBTQIA اور مزدوروں کے حقوق کی توسیع اور حفاظت۔
’’ویمنز مارچ آن واشنگٹن ‘‘تو اچھا خاصا حملہ آورانہ نام تھا۔ مگرجب ٹٹو لاتو اس نام کا پس منظر حیرت انگیزلگا۔ امریکہ کی تاریخ میں سٹیزن ٹام پین کے بعد مارٹن لوتھر کنگ ایک محترم نام ہے ۔وہ انسانی حقوق اورنسلی مساوات کا چیمپین رہا ہے۔ وہی لوتھر کنگ جس نے ایک مشہور تقریر کی تھی:’’I Have a dream‘‘۔دراصل یہ تقریر اُس نے جس بڑے جلوس میں کی تھی اُ س کا نام تھا: ’’روزگار اور آزادی کے لیے مارچ آن واشنگٹن ‘‘۔ اب کے عورتوں نے اپنے جلوس کو اُسی نام کے تسلسل میں ’’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘‘ رکھا۔
یہ دراصل صرف عورتوں کے حقوق کا جلوس نہ تھا۔ بلکہ یہ تو ٹرمپ کی صدارت تک پہنچنے والی ساری سماجی صورتِ حال کی مخالفت کا جلوس تھا۔ یعنی سارے انسانی حقوق کی بحالی کا جلوس ۔اور انسانی حقوق کا مطلب ہے: عورتوں کے حقوق ، تولیدی حقوق ،LGBTحقوق ،جینڈر برابری ، ماحولیات کی خیالداری، نسلی مساوات ، مزدوروں کے حقوق،ہیلتھ کیڑاصلاحات ، مذہب کی آزادی۔
یہ محض ٹرمپ اور اس کے عورت دشمن ایجنڈا کی مزاہمت نہیں تھی،بلکہ یہ تو اُس کے پورے نظام کے خلاف بغاوت کا علم تھا جس میں عورتیں اور مزدورخسارے والے گروپوں میں ہیں۔ اور وہاں کیا خوبصورت باتیں ہوئیں ،کیااچھے نعرے لگے اورکتنے خوبصورت بینر تھے!! ۔ ایک مقرر کہہ رہی تھی : ’’عورتوں کے لیے’خوبصورت ‘کا لفظ استعمال ہوتا ہے مگر’ سمارٹ ‘کا نہیں ،آپ کے جسم کی بات ہوگی ،آپ کے دماغ کی نہیں، آپ کے حسن کی بات ہوگی مگر آپ کی ڈگری اور سندکی نہیں‘‘۔ایک مقررسماج میں عورتوں کی برابری کے معاملے پر کچھ لوگوں میں موجود واہمے پربول رہی تھی:‘‘خود کوبرابر سمجھنے اور برابر ہونے میں بڑا فرق ہے۔ہماری آج کی برابری ایک واہمہ ہے عورتوں کودیدہ دانستہ اور منظم طور پرمحکوم رکھا جا رہا ہے ۔ نہ ہم برابر ہیں، اور نہ ہماری بیٹیاں ۔یہ واک ہماری بیٹیوں کے لیے ہے اور بیٹیوں کی بیٹیوں کے لیے ہے‘‘۔۔۔واضح رہے کہ ٹرمپ اورہیلیری اور اوباما کا امریکہ عورتوں کی مساوات میں دنیا میں45ویں نمبر پر ہے۔ وہ تو اس معاملے میں حتی کہ روانڈ اسے بھی پیچھے ہے۔
ایک مقرر نے کہا: ہمارآئین ’’مَیں ، صدر‘‘ سے شروع نہیں ہوتا بلکہ ’’ہم، عوام‘‘ سے شروع ہوتاہے۔
ایک عورت کہہ رہی تھی: ہم مائیں ہیں، ہم خیال رکھنے والے ہیں ، ہم آرٹسٹ ہیں، ہم ایکٹوسٹ ہیں، ہم enterpreneurہیں، ڈاکٹر ہیں، انڈسٹری اورٹکنالوجی کی لیڈرز ہیں۔ ہماری صلاحیتیں لامحدود ہیں۔ ہم ابھریں گی۔
اس ویمنز مارچ میں سب سے کم عمر تقریر کرنے والی ’’عورت‘‘ چھ سالہ سوفی ؔ کروز تھی ۔ اس نے کہا: ’آئیے ہم محبت ، یقین اور جرات سے لڑیں تاکہ ہمارے خاندان تباہ نہ ہوں۔ ۔۔۔میں نے بچوں سے یہ بھی کہنا ہے کہ ڈرومت ، اس لیے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں۔ابھی تک بہت سارے لوگ موجود ہیں جن کے دل محبت سے بھرے ہیں ۔ آؤ ہم اکٹھے ہوں اور حقوق کے لیے لڑیں۔ خدا ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
اور یہ تو خیر دنیا بھر میں اچھے لوگوں کانعرہ ہوتاہے:’’فرسٹریٹ مت ہوجاؤ ، شامل ہوجاؤ ۔شکایت نہ کرو، منظم ہوجاؤ‘‘۔
اور ساری نسانیت کی محبوب لیڈر انجیلا ڈیوس کہہ رہی تھی :’’ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم تاریخ کے مجموعی ایجنٹ ہیں۔ یہ کہ تاریخ ویب پیج کی طرح ڈیلیٹ نہیں کی جاسکتی‘‘۔
چنانچہ 2017کاجنوری ‘تاریخ میں محض ایک پسپائی کا سال نہ رہا۔ بلکہ پسپائی کے خلاف عزم و استقلال کے ساتھ انسان کے اٹھ کھڑے ہونے کا سال بھی بن گیا ۔ اس لیے کہ اندھیر اور اندھیرا پھیلانے والے ٹرمپ کے خلاف لاکھوں عورتیں‘ trans-people ، مرد، اور یوتھ’’ ویمنز مارچ‘‘ میں نمودار ہوئے۔ یہ تبدیلی کی طاقتورفورسز کی نمائندہ ہیں۔ نسل پرستی، مرد پرستی اورپدرسری کے مرتے ہوئے کلچر ز کو دوبارہ ابھرنے نہ دینے کا مارچ!!۔
یہ کروڑوں لوگ تاریخ کے ایجنٹ تھے۔ یہ لوگ دنیا کی ترقی یافتہ سر زمین پہ جمع ہوئے اور اُن اولین لوگوں کی راہنمائی کی جو بڑے پیمانے کی نسل کشی والی تشدد سہنے کے باوجود زمین، پانی، کلچر ، اور اپنے عوام کے لیے جدوجہد سے لادعویٰ نہ ہوئے۔
اس مارچ نے ایک عجیب اعلان یہ کیا کہ ’’کوئی انسان ناجائز نہیں ہوتا‘‘۔ اس مارچ نے کرہِ زمین کو بچانے کی ٹھان لی ہے، ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کا مارچ ۔ یہ درختوں بوٹیوں پرندوں چرندوں کو بچانے کا مارچ تھا، ہوا، فضا، پانی کو بچانے کا مارچ۔
یہ عورتوں کا مارچ تھا جو ریاستی تشدد کے مہلکاختیارات کے خلاف تھا۔ متحد کرنے والا ایسامارچ جونسل پرستی،عورت سے نفرت اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف تھا۔ ایک مشترکہ مزاہمت کے عزم کا مارچ۔ کس کے خلاف ؟۔۔۔۔۔۔مکانوں اور زمینوں کو رہن رکھنے والے منافع خوروں ہیلتھ کیئرکو نجی ملکیت میں رکھنے والوں کے خلاف، امیگرنٹس پر حملوں کے خلاف، معذوروں پر حملوں کے خلاف ، پولیس اور جیل کی صنعتی کمپلیکس کی طرف سے کیے جانے والی ریاستی تشدد کے خلاف ، ادارتی اورگھریلوصنفی تشدد بالخصوص رنگدار transwomenکے خلاف تشدد کی مزاحمت سارے کرہِ ارض پہ عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔ اور یہی تو سماجی انصاف ہوتا ہے۔
بلاشبہ جنوری2017 کی ’’ ویمنز مارچ‘‘ میں شامل لاکھوں انسانوں نے دنیا بھر کی عورتوں کوآواز بخش دی۔اگلے ماہ و سال اس جدوجہد کوتیز رکھنے کے ماہ و سال ہوں گے ۔ سماجی انصاف کے یہ مطالبات زیادہ جنگجوہوں گے۔یہ فیصلہ ہوا کہ اپنے ، روں روں کرنے سے بہتر ہے کہ انسان کی طویل جدوجہد کے ذریعے حاصل ہونے والی نعمتوں کے دوبارہ حصول کے لیے فائٹ بیک کیا جائے گا۔ چنانچہ ٹرمپ کے اگلے چار برس انسانوں کی طرف سے اس کی مزاحمت کے چار سال ہوں گے۔ یہ مزاحمت زمین پہ ہوگی، کلاس رومز میں ، جاب پہ، آرٹ میں اور موسیقی میں ہوگی۔
جو لوگ انسانی آزادی پر ایمان رکھتے ہیں،وہ اُس کے موصول ہونے تک آرام سے نہیں بیٹھ سکتے۔
اس ’’ویمنز مارچ آن واشنگٹن ‘‘نے صدرٹرمپ کے اولین 100دنوں کی طرح اپنے لیے بھی اِن 100دنوں میں ڈیوٹیاں مختص کردیں۔ وہ لوگ ٹرمپ کے 100دنوں میں دس اقدام کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ہر دس دنوں کے لیے ایک اقدام ۔وہ ان 100دنوں میں ٹرمپ کے نفرت بھرے ایجنڈا کو روکنے ، اور نسلی، سماجی ، ماحولیاتی اور معاشی انصاف کے کاز کو آگے بڑھائیں گی۔
100دنوں میں اُن کا پہلا اقدام ہوگا: سینٹروں سے پوسٹ کارڈ کے ذریعے رابطہ کرنا۔ ایسے پوسٹ کا رڈ ز جن پر لکھا ہوگا: ’’ہماری آواز سنو‘‘۔
’’ ویمنز مارچ آن واشنگٹن ‘‘ وہ سنگِ میل واقعہ تھا جس سے ہزاروں کونپلیں شاخیں نکلیں گی۔ اسے پہلے ’’بہنوں کا مارچ ‘‘ کہا گیا۔ اور اب تو اسے باقاعدہ’’ویمنز مارچ موومنٹ‘‘ کہا جانے لگا ہے۔
۔۔۔۔۔۔اور ہم اس ویمنز مارچ موومنٹ کا ازلی ابدی حصہ ہیں۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *