Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ فیض محمد شیخ

غزل ۔۔۔ فیض محمد شیخ

فلک سے روح دھرتی پر گرائی جانے والی ہے
مری برسوں کی پل بھر میں کمائی جانے والی ہے

جنہوں نے خون سے لپٹے ہوئے اجسام دیکھے ہیں
قیامت ان کی آنکھوں سے اٹھائی جانے والی ہے

دھواں اٹھ اٹھ کے پھولوں سے لپٹ کے رونے والا ہے
اک ایسی آگ گلشن میں لگائی جانے والی ہے

جہاں ہر شخص سنتے ہی سماعت ڈھانپ لیتا ہے
صدا اک ایسی بستی میں لگائی جانے والی ہے

تو لازم ہے تڑپتا دل نکالوں اپنے سینے سے
تمہاری یاد جو دل سے اٹھائی جانے والی ہے

ابھی سے آنکھ میں آنسو ابھی سے دل تڑپتا ہے
کہانی تو ابھی باقی سنائی جانے والی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *