Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ تمثیل حفصہ

غزل ۔۔۔ تمثیل حفصہ

خواب میرے ، دیکھتے ہو، تو لتے ہو، بولتے ہو
کیا قیامت ، کیا قیامت ، چیختے ہو، بولتے ہو

سرخ وحشت ، سبزآنکھیں ، زہر نیلا ، رات کالی
شور ، ماتم ، راکھ ، ہر سو گھولتے ہو، بولتے ہو

دن سویرا ، اڑتے پنچھی ، بہتا پانی ، کھلتے غنچے
امن گانا، یہ ترانا، بیچتے ہو، بولتے ہو

گہرے سائے، سب پرانے ، ایک آئے ایک جائے
آنچ پر بھی ، کانچ پر بھی ، ناچتے ہو، بولتے ہو

میری گڑیا کو بھی توڑا ، میرا جگنو بھی بجھایا
تم عقیدوں کے سہارے ، کھیلتے ہو، بولتے ہو

پیاری چڑیا اور کبوتر، آسماں میں فاختا ئیں
گہرے بادل ، بلکی بارش ، بھیگتے ہو، بولتے ہو

سبز پرچم ، سانس مدہم، خوف ہردم ، درد رقصم
چاند تارہ ، دیس پیارا ، رولتے ہو ، بولتے ہو

آؤ مل کے ہاتھ پکڑیں، دل جلائیں اور ہنسائیں
تم مگر دکھ ،بانٹتے ہو ، مارتے ہو، بولتے ہو

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *