Home » پوھوزانت » عزت پنجگوری ۔۔۔ سجاد کوثر بلوچ

عزت پنجگوری ۔۔۔ سجاد کوثر بلوچ

بلوچستان کی وادیوں ، نخلستانوں ، دیہاتوں اور کوہستانوں میں کون سا بلوچ ہوگا جو عزت اور مہرک کے رومانوی داستان سے واقف نہیں۔ وہ کون سا چرواہا، ساربان اور کماش ہے جسے عزتؔ کے اشعار ازبرنہ ہوں، وہ کون سا بلوچی ساز وزیملی دیوان ہوگا جہاں گلوکاراس کے اشعار نہ گاتے ہوں اور وہ کس کا دل ہے جو یہ اشعار سن کر عزتؔ کی بے چین روح کی طرح تڑپتا ا ور بے قرار نہیں ہوتا ۔
عزت ؔ کے والدکا نام لالہ تھا اور ان کا بچپن پنجگور کے موضوع تسپ (Tasp) کے نخلستانوں اور کاریزات پر گزراہے ۔ جیسا کہ وہ اپنے ایک شعر میں خود ہی کہتا ہے
اسمے کہ ’’ع‘‘ او ’’ز ‘‘ انت ’’ت‘‘ آ ہوار کنت
ابنِ دو ’’ل ‘‘ او ’’و ‘‘ پنجگور مقام کنت
بعض مورخین اور لکھاری ان کو مختلف قبائل سے جوڑتے ہیں جیسا کہ کامل القادری ’’بلوچستان کی وادیوں میں ’’صفحہ نمبر 152میں لکھتا ہے کہ ’’ عزت کا تعلق باران زئی قبیلہ سے تھا اور مگس (ایرانی بلوچستان ) کے شہر دہان ؔ میں رہتا تھا‘‘۔عبدالوہاب آریا بلوچ اپنے ایک بلوچی مضمون میں لکھتا ہیکہ ’’ملا عزت کا تعلق دہانؔ ( مغربی بلوچستان ) سے تھا ء البتہ کبھی کبھار پنجگور آتا جاتا تھا‘‘۔’’ بلوچی ادب کا مطالعہ‘‘صفحہ نمبر 190 اور 191میں ملا عزت کے بارے لکھا گیا ہے کہ ’’عزت مکران کے شہر پنجگور تسپ میں پیدا ہوئے اور وہ ملازئی قبیلہ سے تعلق تھا اور ان کے والد محترم کا نام ’’ولی محمد ‘‘ تھا جو کہ فارسی کا ایک اعلیٰ شاعر بھی تھا‘‘اثیر عبد القادر شاہوانی ’’ناطق مکرانی‘‘ میں صفحہ نمبر176اور 177میں عزت نظم کے بارے میں لکھتا ہیکہ ’’آپ سر باز کے رہنے والے تھے، شہ گل اور عبدالرحمن نے اپنے مسودوں میں ان کی صرف ای نظم نقل کی ہے جو دومسودوں میں ایک ہی طرح درج ہیں۔ بلوچی کے یہ مشہور شاعر عزت پنجگوری سرباز گئے تھے اور کئی سال وہاں رہے جیسا کہ عام بلوچی روایت ہے اور جیسا کہ میر محمود خان گچکی نے کہا ہے اور کئی ادیبوں بشمول کامل القادری نے لکھا ہے ۔ کامل القادری کے مطابق وہ فارسی میں بھی شاعری کرتے تھے اور ان کی اولاد بشمول ملا ولی محمد فارسی کے اعلیٰ پائے کے شاعر تھے ۔ پتہ نہیں یہ ملا عزت وہی عزت پنجگوری ہیں یا کوئی دوسرا‘‘۔
جناب کامل القادری اور جناب اثیر عبدالقادر شاہوانی نے جو یہ ساری باتیں کہی ہیں وہ سو فیصد درست نہیں ہیں ۔ البتہ ملازئی قبیلے میں ایسے بہت سارے شعرا گزرے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کی بدولت فارسی ادب میں نام کمائے اور عالمی شہرت بھی اختیار کی۔ جہاں تک فارسی زبان کے مشہور شاعر میر ولی محمد ملازئی کا تعلق ہے وہ تسپ پنجگور میں رہتا تھا، ان کا تعلق ملازئی خاندان سے تھا اور ملا عزت ولد للاہ کا ان سے دور کا رشتہ نہیں ہے اور نہ اس خانوادہ خاندان میں عزت یاللاہ نامی کوئی فرد گزراہے ۔
’’بلوچستان کی وادیوں میں‘‘ صفحہ نمبر152پر کامل القادری ملا عزت پنجگوری کے بابت مزید لکھتے ہیں کہ ’’ان کا پیشہ زرگری (سونار )تھا‘‘
جب وہ مغربی بلوچستان کے گاؤں پیردانؔ میں مہر خاتون عرف ’’مہرک‘‘ کو دیکھنے کے لیے گیا تو انہوں نے وہاں کسی سونار کے ہاں کام کیا۔ جب تک وہ وہاں تھا’’زرگری‘‘ کا کام کرتا تھا۔ یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے وہ اس سے پہلے بھی یہی کام کیا کرتے تھے ۔ یاد رہے کہ پنجگورمیں تسپ وہ واحد علاقہ ہے جہاں زرگر یا سونار آباد اور اس خاندان میں شعراء بھی گزرے ہیں۔ یوں ملا عزت پنجگوری کا اس خاندان سے تعلق رہا ہو گا مگر اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے ۔
ملا عزت پنجگوری کی تاریخ پیدائش معلوم نہیں۔ البتہ وہ ملا قاسم ، ملا بوہیر اور ملا فاضل رند کا ہم عمر رہا ہے ۔ ملا فاضل رند کا دور 1795تا 1800ہے ۔ اس دور پیردانؔ (ایرانی بلوچستان) میں ایک حسین دوشیزہ مہر خاتون عرف مہرک رہتی تھی جو کہ محمد صالح سالک کی بیٹی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ان کی بے مثال حُسن وسیرت کا تذکرہ ہر محفل ودیوان میں ہوتا رہتا تھا اور اس کا دور دور تک چرچا تھا۔ جب ملا فاضل رند نے ملا عزت کے ساتھ ’’مہرک ‘‘ کا ذکر کیا اور اس کی بے مثال حُسن وسیرت کی تعریف وتوصیف کی تو عزت ’’مہرک ‘‘ کو بنا دیکھے اس کے عشق میں گرفتار ہوا ۔ یاد رہے کہ ملا عزت پنجگوری ’’مہرک‘‘ پر عاشق ہونے سے پہلے بھی شاعری کہا کرتے تھے مگر بعد کی پوری شاعری ’’مہرک ‘‘کے ار دگرد گھومتی ہے۔
’’مختصر تاریخ زبان وادب بلوچی‘‘میں صفحہ نمبر 240پر ڈاکٹر شاہ محمد مریؔ ملا عزت پنجگوری کے بابت لکھتا ہے کہ ’’ملا فاضل کا ہم عصر یہ شاعر بلا شبہ شے مُرید کی یاد دلاتا ہے ۔ مہرک (مہر بانو) پہ عاشق یہ شاعر اس خوبرولڑکی کی تعریفیں سن سن کر اپنا وطن چھور دیتا ہے اور پہلے سے منگنی شدہ مہرک پہ شاعری کرتے کرتے اس کا رشتہ مانگتا ہے ۔ اس دیوانے شاعر سے جان چھڑانے کی خاطر بیش قیمت زیورات اور ملبوسات کی شرط عائد کی جاتی ہے ۔ عزت بہت مصائب وآسام سے گزر کر یہ شرط پوری کر کے آجاتا ہے تو دوسری جانب سے ’’مہرک‘‘ کا جنازہ آرہا ہوتا ہے ۔
عزت صحرا نورد ہوگیا۔ شہ مریدؔ چار سو سوال پہلے صحرا برد ہوچکا تھا مگر ان غلط فہم عشاق کو کون سمجھائے کہ انسان تو شہروں میں ہی ملتے ہیں، صحرامیں محبوبہ کا کیا کام ؟۔ ’’اُس ‘‘ سے وصل صحرا میں نہیں ہوسکتا ، ہاں البتہ ’’اُس ‘‘ سے اعلیٰ تر کوئی ہستی فطرت کے قریب ضرور بسیرا کرتی ہے ، آئیے دیکھیں کہ کیاصحرائی عزت کو اس کی محبوبہ مل پائی؟
سرباز شہر پیردان رفتوں تمامے ایران
ٹُکر گدائی پنڈاں چو کا بلی پکیراں
ہرجارواں، نمیراں نیست انت دلارا ارمان
من مہرکانہ گنداں باغاگلے بہ سنداں
ترجمہ:- سرباز شہر پیردانؔ ، سارا ایران گھوما ، روٹی گدائی مانگی کابلی بھکاریوں کی طرح ، جہاں بھی گیا موت نہ آئی ، دل کا ارمان کہیں بھی نہیں ، مجھے باغ کا پھول مہرک کہیں نہیں ملتی۔
ملا عزت کی شاعری کے تین ادوار ہیں۔
پہلے دور کی وہ شاعری ہے جب عزت مہر خاتون (مہرک) کے عشق میں گرفتار نہیں ہوئے تھے ۔ عزت کی پہلے دورکی شاعری ناپید ہے البتہ یہ کہا جاتا ہے وہ ملا فاضل ،، ملا قاسم ، ملابوہیر، ملانور محمد اور ملا محمد کا ہم عمر رہا ہے اور شاعری بھی کیا کرتے تھے۔
دوسرا وہ دور ہے جب ’’مہرک‘‘ سلامت اور زندہ تھی۔ عزت جہاں بھی جاتے تھے اپنی محبوبہ کے گن گاتے تھے۔ ان کی تعریف وتوصیف میں شعر کہتے رہے۔
عزت کی شاعری کا تیسرا دوروہ دور ہے جب اُس کی محبوبہ’’مہرک‘‘ کو موت اپنی آغوش میں لیتا ہے اور اُس کی شاعری امر ہوجاتی ہے ۔
عزت کے بارے میں کہاجاتا ہے ، اُس نے ابتداء فارسی زبان میں شاعری کی ہے۔ (1)
اے دلاخیز خوان نعت رسول انس وجان
آن شفیع یوم محشر ماہ دمالار جہان
اے بدرگاہ رفیع محرم واسرار دان
چشمہ علم الیقین از کرم بارد بیان
گویمعزت از دل وجان نعت آں سلطان دین
بلبل باغ جنان ونور رب العالمین
شاید بلوچوں میں فارسی شاعری کی خاص پزیرائی یا ازبرنہ ہونے کی وجہ سے عزت کے بیشتر اشعار سینہ بہ سینہ منتقل نہیں ہوسکے۔ اس لیے فارسی کے اکثر اشعار سامنے نہیں آئے ہیں۔
اس دور میں مشکل گوئی اور فارسی وعربی کے الفاظ کی استعمال شاعری کی معراج سمجھا جاتا تھا۔
اسی طرح ملا عزت نے بھی اپنے اشعار میں فارسی وعربی کے الفاظ زبان کی ساخت وبیان کو دیکھ کر استعمال کیے ہیں۔
زر د ہم درود اکبر سوبے بنا کنت
منی دل بلبلی نالیت سد ہو ؤآہ کنت
***
قل الذین کفرو امہرجان کھیب کنت
ان الذین امنوامانند ء شیپ کنت
ملا عزت نے اپنی محبوبہ ’’مہرک ‘‘ کے لیے جو تشبیات استعمال کی ہیں وہ عام فہم اور سادہ ہیں۔ وہ بلوچوں کے بادیہ نشین معاشرے کے مطابق ہیں اور ہر ایک ان کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ ’’مہرک ‘‘ کی بے مثال حُسن وسیرت اور گفتار وکردار کی عکس کشی ملاعزت پنجگوری نے اپنے اشعار میں ایسے کی ہے شاید ہی کوئی ایسا کسی شاعر نے اپنے محبوبہ کی تعریف وتوصیف کے گن گائے ہو۔
بلوچی زبان میں ان کی شاعری کے تھیم وتمام تر تفکرات وکلمات میں غم خیالات، مٹھاس وشیرنی اور بھر پور نغمگی پائی جاتی ہے۔ ملا عزت کی شاعری ساون کی گھٹاؤں کی طرح چمکتی ، بلوچستان کے کوہستانوں اور مکران کے نخلستانوں، وادیوں اور صحراؤں کو موسلا دہار بارش کی جھڑیوں کی طرح اپنے اشعار سے جَل تھل کر دیتی ہے ۔ اس کی تمام شاعری میں’’مہرک‘‘ ہی اس کی شخصیت اور فن کا محور ہے اور ’’مہرک‘‘ کی محبت زندگی کا حاصل،لیکن جب اسے ’’مہرک ‘‘ کی شکل میں محبت نہ ملی تو وہ بلند پایہ شاعر بن گیا۔
مہرک پیداک بوت ربئے درگاہا
ماتا پہ زاری پنڈتگ پیراں
رودینتہ گوں شکل او شیراں
مہر خاتون گوں دز گہاران انت
دیم ئے چونوک سنج ئیں سگاران انت
روہے چو شمس خاوریا انت
پادے گوں کیچ ئے دوچیں زری آں انت
سربازی شر رنگیں جنک ہمے یک انت
دزگہاراں گوں قیمت ئے لکھ انت۔
ترجمہ:-
رب نے مہرک کو پیداکیا ۔ اُس کی ماں نے آہ وفریاد کر کے پیروں سے مانگی تھی ۔ اُسے لاڈو پیار سے پالا ۔ اٹھنا بیٹھنا ان کی ہمیشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہے ۔ وہ اتنی خوبصورت نئی تلوار جیسی اور چہرہ شمس خاوری جیسا ، وہ ہمیشہ کیچ کی بلوچی کشیدہ کاری ملبوسات پہنتی ہے ۔ سرباز کی یہی ایک ہی خوبصورت لڑکی ہے ۔جو لاکھوں میں ایک ہے۔
ملا عزت ’’مہرک‘‘ کے خیالوں وخوابوں میں مست رہنے کے بعد محض ان ہی کے خواب وخیالات ان کے دل ودماغ پر حاوی ہوتے ہیں ۔ وہ جہاں جاتے ہیں انہیں ’’مہرک‘‘ ہی نظر آتی ہے ۔ بس وہ یہی سمجھتا ہے پروردگار نے ’’مہرک‘‘ کو صرف ان کے لیے پیدا کیا ہے ۔ وہ ہمیشہ ہی ان کی ہے اور رہے گی۔ ان کی شاعری ہر مہرو دوستی اور پیار ومحبت رکھنے والے دل ودماغمیں پھیلا ہواوہ عہد وفا کی عظیم ترین داستان کے شاعر ہیں ۔ عطا شاد ؔ کے مطابق مست توکلی اور عزت پنجگوری کی شاعری تاریخی اور جغرافیائی حالات کی تبدیلیوں کے باوجود شے مُرید کی فکر وخیال سے یکسا نیت ہے ۔ ماحول اور حالات کی تبدیلیوں کے باوجود فکر وخیال کا بُنزہ وہی ہے جو بانک سمی کو مست ؔ کی شاعری میں اور محترمہ مہرک ؔ کو جو حانی ؔ کو شے مُرید ؔ کی شاعری میں حاصل ہے ۔ مگر شے مُرید اپنی محبت سردار چاکر خان کو سونپ کر اور خود شکست خور دہ عاشق کی طرح جلا وطن ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتا ہے جبکہ ’’مہرک ‘‘ کاعاشق عزتؔ تمام حالات وکیفیت سے گزر کر اپنی شاعری کو جلا بخشا ہے ۔
من عزت للاہ آں، بردین مصطفےٰ آں
من عاشق خدایاں، کچکول او عصاءَ زیراں
چوکابلئے پیکرا ٹکر گدائی پنڈاں ، من مہرکا نگنداں
ترجمہ:-
میں عزت للاہ ہوں۔ حضرت مصطفی ؐ کی دین میں ہوں ۔ میں عاشق خدا ہوں، کشکول اور لاٹھی لے کر کابلی بھکاریوں کی طرح در در کی گدائی ، مگر مہرک نہیں ملا۔
عزت ومہرک کی داستان عشق ، بلوچی شاعری میں کئی اچھی نظموں اور اشعا رکاباعث بنی۔ ملا عزت نے ’’مہرک ‘‘کے عشق میں جو اشعار کہے ہیں ان میں الفاظ وگال کے جو موتی پروئے ہیں وہ قابل تحسین وستائش ہیں ۔ ان سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ملاعزت پنجگوری کو زبان وبیان پر کتنی دسترس حاصل تھی اور الفاظ کی چست بندش اور رنگین بیانی میں کتنا مہارت رکھتا ہے ۔
کُلئے کسانیں پری
شمس او قمر تہل گوری
بام ئے او زریں مشتری
مروارد ئے دانگ زری
منی تلی تلانی تلمی
باگانی شرین آسمی
بو ہ کیگد ئے مسک ءَ زری
برتئے قرارا دل منی
مہرنگ نہ کنت ہمسفری
تو شاہی او من زرخرید
منی بالاد غلام انت آسری
ملا عزت ؔ اپنی خوبصورت محبوبہ کی تعریف وتوصیف میں کبھی بخلسے کام نہیں لیتا ، وہ جہاں بھی جاتا ہے اُسے ’’مہرک‘‘ کی یاد ستاتی ہے ۔ اُسکی صفا ت اور رنگ وروپ کا ایسا بیان چھیڑتا ہے تو الفاظ میں جان ڈالتا ہے اور ان میں ایسے معنی پیدا کردیتا ہے کہ حُسن ، مُجسم بن کر سامنے آتا ہے ۔
سرباز شہر پیردان
رفتوں تمام ایران
ہر کجا رواں ، نمیراں
نیست انت دلا راارمان
من مہرکا نہ گنداں
باگئے گُلے بہ سنداں
(سرباز ، پیرادان سمیت تمام ایران گُھوما ، جہاں بھی گیا مجھے موت نہیں اور نہ ہی میرے دل کو قرار آیا۔ اب میں ’’مہرک‘‘کو کبھی نہیں دیکھ سکوں گا۔ کاش ! میں باغ دنیا کا یہ حسین پھول حاصل کر سکتا!!!)
تشبیات واستعارات کا واستعمال ایک ایسا فن ہے شاذونادرہی کسی شاعر کے پاس یہ فن ہو ۔ بلوچی کلاسیکل اور نیم کلاسیکل شاعری میں چند ایسے شعراء ہیں، جنہیں اس فن میں مہارت حاصل تھی۔ جن شعراء کو اس فن میں دسترس حاصل رہی ہے ۔ ان کا شمار ان قادرلکلام شعراء میں ہوتا ہے ۔، جنہوں نے بلند مقام پایا ہے ۔ بلوچی شاعری میں شے مرید ، جام درک ، توکلیمست، ملا فاضل ، جدید شاعری میں سید ہاشمی ، کریم دشتی ، مراد ساحر ، منیر مومن ، منظور بسمل کے علاوہ نیم عہدی شاعری کے دور میں ملا عزت پنجگوری بھی اس فن میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے اشعارمیں ایسی نادر تشبیات سے مالا مال جس کی نظیر بعد کے شعاء کے کلام میں بہت کم ملتی ہے ۔ (2)
تو کہ نہ دیستگ دلبر وہد یکہ داب کنت
اندا مے روچ و وماہابے شک تہار کنت
وہدے پوشیت سُہراں کیدا سوار کنت
اے عاشقیں جوانان نے ہوش وسار کنت
آعطرو مسک و غبر بیکاں ہوار کنت
چوکوہی آہوگا گوں من کنار کنت
چماناں کدئیں کہ سیاہ وخمار کنت
تیرے جت ات دلا مئے ، گوں من چوزار کنت
وتی بارگیں کہ سرینا مثلے کمان کنت
گوں گردنا لطیفیں نخرہ ہزار کنت
نندیت مدام تحتا شیریں نجار کنت
مئے مرتگیں دلا را دلبر قرار کنت
من مست چو گنوکابارگ چے کارکنت
گوں پُلیں دز گو ہاراں دوستا توار کنت
ترجمہ:-
تونے میری محبوبہ کو نہیں دیکھا۔ جس وقت وہ ناز وادا کے پھول بکھیرتی ہوئی نکلتی ہے/ تو اُس کے حُسن کے سامنے چاند اور تارے ماند پڑجاتے ہیں/جب وہ زیور پہنتی ہے اور کید (ایک بلوچی زیور) ڈال دیتی ہے / تو مجھ جیسے نوجوان عاشقوں کے ہوش اڑجاتے ہیں۔ / اور اس پر پہاڑی ہرنی کا گمان ہوتا ہے/ جب وہ بڑی بڑی اور حسین آنکھوں میں کاجل لگا کر پتلیوں کر حرکت میں لاتی ہے/ تو میرے سینے میں تیر سے پیوست ہوجاتے ہیں اور میں تباہ ہوجاتا ہوں۔جب وہ اپنی پتلی کمر کو کمان کی طرح لچکاتی ہے/ تو اس کی لمبی اور خوبصورت گردن ہزار فتنے بپا کر دیتی ہے / وہ تخت پر بیٹھ کر شیرین کی یاد کو تازہ کرتی ہے ۔ اور اس نامراد دل کو سکون پہنچاتی ہے ۔ /میں دیوانے کی طرح مست ہوں ۔۔اور میری محبوبہ /حسین سہیلیوں کے جمگٹھے میں اپنے دوست کو بُلا رہی ہے ۔
’’پنجگور ۔۔۔۔ تاریخ وشخصیات ‘‘ میں خالد بلوچ صفحہ نمبر 152 تا 153 پر ملا عزت پنجگوری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ان کی شاعری میں اس کے جذبات اور احساسات کی وہ قدریں یکساں ہیں جنہیں جغرافیائی حدود اور تاریخی تقسیم میں منقسم نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ اپنی شاعر ی میں مہرک کو قدیم وماضی کے ان عظیم پاک وسچے محبوبوں سے جوڑتے ہیں جوتاریخی اعتبارسے عشقی داستانوں میں لی جنڈکا روپ دھار چکے ہیں ۔وہ اپنے لہجے وانداز میں اپنی داستان کو سمیٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں جوکہ کسی شاعر کی علمی وشعوری وسیع سوچ وفکر کی غمازی کرتی ہیں ۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی شاعری اس دور کی زیادہ داخلی حالات ومفکرات کی زبردست نمائندگی کرتی ہے جو اپنیذات کے اندر گم سم نہیں ۔ ان کی شاعری ان کے ذات تک محدود نہیں بلکہ عشق ومحبت کی نمائندہ پرورشاعری ہے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ عشق ومحبت کو کسی بھی جغرافیائی سرحدوں اور حدود دائروں میں قید بند نہیں کیا جاسکتا ۔
ملا عزت اپنی تمام تر شاعری میں اس دلیل ومنطق کو خوب آشکار کر کے ثابت کرتاہے کہ محبت اورسچی عاشقی کسی معروضی واندرونی بیرونی حالات وموافقت کی کسی طرح محتاج نہیں ۔ شاعر درا صل حساس شخصیت کے ساتھ ساتھ انسانی ضمیر کے حقیقی نمائندے وسفیرہوتے ہیں۔ اس لیے وہ محبوب وعصر حاضر کی طرح بے حس وبنجر گیا بان ہونے کے بجائے داخلی سطح پر بھر پور متحرک بن جاتے ہیں۔ وہ مہرک کے حُسن میں دیوانگی کی حد تک پیردانؔ کے گلی کوچوں میں اسے پانے کی چاہت میں دیوانہ شاعر بن جاتاہے۔ جس سے اس کی شاعری میں ولولہ وجوش کے ساتھ پختگی کے آثار پیدا ہوتے ہیں‘‘
ملا عزت نے اپنی محبوبہ مہرک کے آتشیں حسن وجمال کے متعلق ان گنت گیتوں کی تخلیق کی۔ اس کے اس بھرے گیت بلوچستان کے پیر وکماش ، ورنا جوان ، چرواہے وساربان اور بچے بچے کی زبان پر رقص کرنے لگے ۔
تحفہ ئے جوانیں دات منا شاہا
مہر ک پیدا بوت چہ ربئے درگاہا
ترجمہ : معبود نے مجھے ایک بے مثال تحفہ سے نوازااور مہرک رب کی درگاہ سے نمودار ہوئی ۔
نامور محقق وشاعر میر گل خان نصیر ؔ اپنی کتاب’’بلوچی عشقیہ شاعری ‘‘ میں صفحہ نمبر82پر’’ خواہش وصل ‘‘ کے بارے میں لکھتا ہے:
’’ ہر عاشق اپنی معشوقہ سے وصل کا تقاضہ کر تا رہتا ہے ۔ اردو اور فارسی شاعری میں ہزاروں بلکہ لاکھوں اشعار صرف اسی ایک موضوع پر ملیں گے ، یہی حال بلوچی شاعری کا بھی ہے۔ البتہ ان کے معاشرہ میں جو بُعد ہے وہ شاعری میں صاف جھلکتا ہے ۔ مثال کے طور پرایک بلوچ شاعر وہ بات نہیں کہہ سکتا جو ہند وایران کے ترقی یافتہ معاشرہ میں رہنے بسنے والا شاعر کہہ سکتا ہے ۔ اس لیے بلوچی شاعری پر تنقید وتبصرہ کرتے وقت ہم وہ پیمانہ اور کسوٹی استعمال نہیں کرینگے جو اردو اور فارسی کی درسگاہوں کے باکمال اساتذہ استعمال کرتے ہیں۔ بلوچی شاعری کو پر کھتے وقت یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چائیے کہ بلوچ اب تک ایک بادیہ نشین، گلہ بان، زیور تعلیم سے نا آراستہ ، نو آبادیاتی نظام حکومت کا شکار اور تہذیب وتمدن کی جملہ جدید برکتوں سے محروم چلا آیالیکن وہ سخت جان ، سخت کوش ، قانع ، غیور اور قربانی وسرفروشی کے فطری جذبات سے سرشار ہے ۔ اس کی زبان غیر ترقی یافتہ، سادہ اور اسلیس ہے۔ اُس کی شاعری فطری اور ملمع سازی سے پاک ہے‘‘ ۔
محبو بہ سے ملنے کی تمنا ہی عاشق کو زندہ رکھتی ہے ۔ جس دن اُس کے دل میں وصل کی تمنا جان توڑدے اُس دن سے عاشق ، عاشق نہیں رہتا بلکہ ایک بیجان جسد بن جاتا ہے ۔ اس کی زندگی میں وہ سوزوساز وہ دلکشی اور وہ تڑپ باقی نہیں رہتی جو اُس کا طرہِ امتیاز ہوتی ہے۔
ملا عزت ایک دل جلا ، عاشق مزاج اور متوالا شاعر گزرا ہے۔ اُس نے ’’مہرک‘‘ کے عشق میں کیسی کیسی مصیبتیں جھیلیں اور ہجر وفراق کے کیسے کیسے صدمے اٹھائے وہ ایک الگ داستان ہے ۔ لیکن عشقیہ شاعری میں اُس نے جو مقام پیدا کیا وہ قابلِ تعریف اور مفرد ہے ۔
اس کے اشعار سادہ ، دلکش اور پُرسوز ہیں۔ اپنی ایک نظم میں ’’مہرک ‘‘سے ملاقات کی تمناّ میں کہتاہے کہ :
مناکہر باتیرے چوجتگ کاری
کاد تگ تیگھ و کادی سیاہ ماری
گلگلاہوناں اچ دپہ کاری
چہ بروتان و برتنگلیں ریشاں
چہ بروتانی سرشما کائنت
کیگد ! تئی بیک و ریش منی سیائیں
من شپے یکجا بنت تہار مائیں
ترجمہ: اُس برق وش محبوبہ نے/ مجھے ایک ایسا تیر مارا ہے/ جس نے (میرے دل کو) تلوار کی طرح کاٹا/ اور کالے ناگ کی طرح ڈسا ہے /خون میرے مُنہ سے اُبل اُبل کر گرتار ہتا ہے ۔/ میری مونچھوں کے درمیان سے نکل کر / میری گھنی داڑھی کے اوپر سے بہتا ہے/ ۔ اے میری کیگد (ایک خوشبودار بُوٹی ) سے معطر محبوبہ! / خدا کرے کہ ایک اندھیری رات کو /میری کالی داڑھی اور تیرے کالے گیسُو / (ایک سرہانے پر) آپس میں مل جائیں
عزت ؔ اور مہرکؔ کا عشق دو طرفہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ عزتؔ نے شاعری کے ذریعے آہ وپکار کی اور مہرک ؔ فرسودہ سماج کی خاطر خاموش رہی ۔ البتہ عزت نے سچی محبت کا پہلے اظہار کر ڈالا ۔چونکہ سچی محبت کبھی بے بَر اور بے ثمر نہیں ہوتی اور صادق محبت کی ، پوری دنیا پر خداہوئے اور اس سے محبت کرنے لگے۔ نیز ایک دوسرے سے محبت کرنے کی صورت میں اپنی ذات سے بھی محبت کرنے لگے۔
یہ بات سچ ہے ایک ایسی سوسائٹی جہاں ہر طرف جنگ کی پرچھائیاں مسلط ہوں، جہاں انسانوں کا خون بہت ارزاں ہو اور جہاں ہر طرف نیزے ،تیراور تلوار کی جھنکار سنائی دیتی ہو تووہاں کے ادب میں ان اثرات کا در آنا ایک فطری علم ہے۔ بلوچی عہدی شاعری خاص کرنیم عہدی شاعری کے دور میں بلوچ شعراء نے مرثیہ نگاری کی ہے ، جس کو بلوچی میں’’موتک ‘‘کہا جاتا ہے ۔ ملا عزت نے اپنی محبوبہ ’’مہرک ‘‘ پر جو مرثیہ کہا ہے وہ نہایت ہی پاکیزہ اور سچے جذبات کا مظہرہے اور اس میں کیفیت ، غم واندوھ کو بڑی سادگی سے پیش کیا گیا ہے
ارمان پہ دُریں میر ماتونا
بیشک منادوست ات خالق بیچونا
گوں نہ کپتاں کہ بواناں یاسینا
پہ ہزار نازئے شکلیں گینا
من کہ نہ زانت مہر جان مریت
عزت پہ ہمے روچاں زریت
ثبرن انت منا دوستئے مرگ
جانیئیبے عیبیں روگ
ہر چند چاراں مں دللا
بژن انت منا داں محشر ا
زاناں کہ واست ات قادرا
عزتؔ کو ’’مہرک‘‘ حد سے زیادہ عزیز تھی۔وہ اپنی محبوبہ کو دل وجان سے چاہتا تھا۔ مہرک کی اس بے وقت اور ناگہانی موت ملا عزت کو دیوانہ بناتا ہے ۔ مہرک کی جدائی میں وہ حواس باختہ ہوجاتا ہے۔ اُس کی دل سے آہ نکلتی ہے اور پیردانؔ کو بد دعا دیتا ہے ۔
گُڈ مہرکا پیردان سیاہ سُچات
ہلک ئے در رچات سیاہ ڈنے تچات
ترجمہ : مہرک کے بعد اب پیردان پر برق گرے
اس کی آبادی اسے چھوڑ کر صحراؤں میں جابسے
’’مہرک ‘‘ کی موت کے بعد عزتؔ اُس کی قبر پر کئی روز تک رہا ۔ آنسو بہا تا رہا ، اپنی محبوبہ کے مرگ کے سوگ میں شعر کہتا رہا ، آخر کار پیردان ؔ کو خیر آبادکہہ کر صحرانوردی اختیار کر لی۔

کتابیات:
(۱) شاہوانی، اثیر عبدالقادر، 2008ء بلوچی اکیڈمی کوئٹہ صفحہ نمبر 176
(۲) قزلباش ، انجم ، 1979ء بلوچوں کو رومان ، قلات پبلشرز صباح روڈ کوئٹہ، صفحہ نمبر، 73 ، 74، 75
(۳) نصیر ، گل خان ، اکتوبر 1979ء بلوچی عشقیہ شاعری ، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ صفحہ نمبر93 ، 94

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *