ابھی تم اس جگہ بیٹھے سحر کی بات کرتے تھے
نگاہوں میں اداسی کے شجر پر
صبح نو کرنیں سجاتی تھی
مبارِززندگی
چہرے کے ہر لمحے پہ لکھی تھی
گھٹن کو قہقہوں کی موج سے تحلیل کرتے تھے
حیاتِ بے ثمر کی تلخیوں کو
مسکراہٹ میں بھلاتے تھے
اندھیروں کے مقابل
اپنی سوچوں کے چراغوں کی
صفیں ترتیب دیتے تھے
ابھی تم اس جگہ بیٹھے سحرکی بات کرتے تھے
مگر خوابوں کی گھٹڑی کو اٹھا ئے
تھکن سے چور شاید ہوگئے ہو
اچانک بھول کر سارے جھمیلے
خموشی سے کہیں پر سوگئے ہو
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...