Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ ابرار احمد

غزل ۔۔۔ ابرار احمد

دہر میں یوں تو کیا نہیں موجود
پھر بھی وہ لطف سا نہیں موجود
جو میسّر رہا ، غنیمت تھا
جو میسّر رہا ، نہیں موجود
یاد یاراں کا داغ جلتا ہے
اور کوئی دیا نہیں موجود
اس خمار طلب میں کھلتا نہیں
کیا ہے موجود ، کیا نہیں موجود
پہلے اذن کلام غائب تھا
اور اب مدّعا نہیں موجود
دو گھڑی تم ہو دو گھڑی ہم ہیں
کوئی ہم میں سدا نہیں موجود
اب یہیں خاک ہو رہیں گے ہم
اب کوئی راستا نہیں موجود
اے غبار رہ طلب گاراں !!
کہیں اس کا پتا نہیں موجود
ہم نے مانگا نہیں ہے جب کچھ بھی
پھر ہمیں کیا کہ کیا نہیں موجود
ہم پہ اے دوست ، ہاتھ رکھ اپنا
ہم میں اب حوصلہ نہیں موجود

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *