Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ انجیل صحیفہ

غزل ۔۔۔ انجیل صحیفہ

ہوا کے بھید پاتی جا رہی ہوں
میں اس کےُ سر میں گاتی جا رہی ہوں

مجھے باہر سے ڈر لگنے لگا ہے
سو اندر ہی سماتی جا رہی ہوں

جو تنکے فاختہ چنتی رہی ہے
وہ اپنے گھر میں لاتی جا رہی ہوں

تیرے ملنے کی خواہش دل میں لے کر
ستاروں کو ملاتی جا رہی ہوں

جو مجھ کو دیکھتے ہیں بولتے ہیں
یہ کیسے بت بناتی جا رہی ہوں

میں خود بھی رو رہی ہوں کھو کے اس کو
میں سب کو بھی رلاتی جا رہی ہوں

مجھے منظور کب ہیں تیری باتیں
میں پھر بھی سر ہلاتی جا رہی ہوں

جسے ہے زندگی میں سب میسر
اسی پہ سب لٹاتی جا رہی ہوں

تمہی کو یاد رکھنا میں نے سیکھا
تمہی کو ہی بھلاتی جا رہی ہوں

میں اڑ کر چھو رہی ہوں بدلیوں کو
گگن کی اور جاتی جا رہی ہوں

جو ہے انجیل میرے دل کی آیت
وہ کیوں سب کو سناتی جا رہی ہوں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *