Home » قصہ » میراث ۔۔۔۔ خور  ۔۔۔  فرزانہ خدرزئی

میراث ۔۔۔۔ خور  ۔۔۔  فرزانہ خدرزئی

آدم خور اور میراث خور میں ’’خور‘‘ لفظ مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ پہلے حصے کے الفاظ ’’ر‘‘،’’الف‘‘،اور ’’میم‘‘میں بھی اشتراک پایا جاتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ میراث خور آدم خور سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔آدم خور صرف انسانوں کو ہڑپ کر جاتا ہے ،اس کا خون پیتا ہے جب کہ میراث خور کا پیٹ مثل دوزخ ہوتا ہے ،انسانو ں کا خون پینے کے ساتھ ساتھ زمینیں ،باغات،نقدی،زیورات،بچے ،عورتیں سب کھا جاتا ہے پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔۔۔بلکہ اور کی طلب کے ساتھ یہ احساس بھی اسے مارڈالتا ہے کہ اس کے حصے میں دوسروں کی نسبت شکار کا کم اور قدرے کمزور ساحصہ آیا۔آدم خور شکار کے پیچھے بھا گتا ہے تگ و دو کرتا ہے مگر میراث خور تو حقیقی وارث ہوتا ہے اسے بھاگ دوڑنہیں کرنی پڑتی بلکہ قدرت یہ حصہ اس کی جھولی میں خود ہی ڈال دیتی ہے ،تو اس بہتی گنگا سے ہاتھ کیوں نہ دھوئے جائیں ۔۔۔ایسا نہ کرنا تو سراسر بے غیرتی ہے ۔مردانگی اسی کا ہی تو نام ہے جو اس کا حق ہے وہ اس سے دستبردار کیوں ہو؟۔اپنا حق کیوں وصول نہ کرئے آخر قدرت نے اسے خود ہی تو موقع فراہم کیا ہے۔
ٹاٹ کے بوسیدہ سے پردے سے جھانکتی وہ سولہ خوف زدہ آنکھیں ۔۔۔اضطرابی کیفیت سے دوچار لکڑی کے دروازے تک سفر کرتیں اور پھر بے چینی سے انگلیاں مروڑتے ہوئے ۔۔۔کھسر پھسر ۔۔۔سرگوشی میں بولتیں ۔۔۔خوف زدہ لرزتے ہونٹ مسلسل وظیفہ پڑھنے میں مشغول تھے جیسے آج اللہ تعالیٰ سے وظیفے کے زور پر اپنی بات منوانے کا مصمم ارادہ کرلیا گیا ہو اور اگر آج بھی دعا قبول نہ ہوئی تو شاید پھر کبھی دعا کی حاجت ہی نہ ہو ۔۔۔گھر میں آئی خواتین کا اضطراب بھی دیدنی تھا ۔۔۔معلوم تھا اچھی طرح کہ حسب معمول وہی ہو گا جو آٹھ مرتبہ پہلے ہوا پھر انتظار کس بات کا ۔۔۔اٹھ اٹھ کر ناقدانہ جائزہ لیتیں ۔۔۔ان کے کمرے میں تفاخرانہ دخول اور ناپتی تولتی آنکھیں ۔۔۔خوف زدہ آٹھ وجود کونے میں جھجھک کر سمٹ جاتے۔۔۔انتظار تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہاتھا ۔۔۔اندر خوف ،اندیشے ،وسوسے اوربے چینی تھی تو باہر بے حسی ،خود غرضی کے ساتھ صرف بے چینی ہی ایک مشترک کیفیت تھی جیسے ممتحن اعلان کرنے والا ہو کسی ایک کی کامیابی اور دوسرے کی شکست کا ۔۔۔عجیب سا امتحان تھا یا کھیل ۔۔۔جانا پہچانا ۔۔۔پرانا جو صدیوں سے کھیلا جا رہا تھا۔
امیر زمان بس نام کا ہی امیر تھا ۔پتہ نہیں والدین ناموں کے معاملے میں سوچ بچار سے کام کیوں نہیں لیتے ۔کالی کلوٹی بد صورت بیٹی کانام پری گل،حور بی بی،شائستہ ،زیبا،روڑاں۔ کنجوس شخص کا نام سخی جان ،غریب گھر میں پیدا ہونے والے کا نام دولت خان۔۔۔پتہ نہیں اس کے والدین نے کیا سوچ کر اس کا نام امیر زمان رکھا؟۔کیوں کہ امارت ،دولت تو اس کے سات پشتوں میں بھی شاید کسی نے دیکھے ہوں ۔۔۔وہ تو رشتوں کے حوالے سے بھی بہت غریب تھا۔۔۔نہ کوئی بھائی بہن ۔۔۔پتہ نہیں اس کے باپ نے دوسری،تیسری ااور پھر چوتھی شادی نسل بڑھانے کے لئے کیوں نہیں کی۔اس نے اپنے رشتوں میں بس صرف چچا،چچازاد بھائی اور پھوپھیاں دیکھی تھیں۔ہوش سنبھالا تو خود کو یتیم ہی پایا۔اس کے باپ آُکی چھوڑی زمین اورجائیداد جس کا وہ تنہا وارث تھا چچاؤں نے آپس میں بانٹ ؒ ٰ لی ۔۔۔سفید کاغذوں وقتا فوقتا اس سے نجانے کتنی مرتبہ انگو ٹھے لگوائے گئے ۔اسے خود بھی ان کی تعداد یاد نہیں تھی ۔ان پڑھ تھا ۔ابھی سترہ برس کا ہونے میں کئی مہینے باقی تھے مگر رشتہ داروں کو اس کا شناختی کاڑد بنوانے کی فکر لاحق ہو گئی ۔۔کارڈ ہو گا تو ہی شناخت ممکن ہو گی اور پھر شناختی کارڈ کے بننے کے بعد وہ حقیقتا بے شناخت ہو گیا۔ وہ شناخت جو گھر اور زمین کے نام سے بننی تھی وہ اب پکے کاغذات کے ساتھ کسی اور کی شناخت بن گئی۔ یہ شناخت اس سے اسلئے بھی چھینی گئی کہ سترہ برس تک اسے اتنا کڑیل جوان بنانے میں ، پالنے پوسنے میں لاکھوں کا خرچہ اٹھ گیا تھا۔لٹائے تو لاکھوں گئے تھے مگر دو سو کا جوتا اس وقت تک نہیں بدلاجاتا جب تک کٹنے پھٹنے کے بعد باربا ر سلائی کے مراحل سے گذر کر پاؤں میں تنگ نہ ہو جاتا ۔کپڑے ،گھٹنوں،بغلوں اور کالر والے حصے سے گھس پٹ کر اب اس کے جسم کو چھپانے کی بجائے ظاہر کرنے کے مرحلے سے نہ گذرتے اور پھر اگلے رمضان تک کوئی خداترس اپنے کسی پیارے کی روح کی خوشحالی کے عوض اسے جوڑے کے ساتھ نئی جوتی عنایت کر جاتا۔ یہ بھی مہربانی تھی اس کے وارثوں کی کہ کم از کم رمضان میں ملنے والی یہ خیرات اسے بخشش میں دی جاتی ورنہ وہ کسی کا کیا بگا ڑ لیتا۔
سترہ سے ستائیس اور پھر سینتیس برس تک پہنچنے میں کچھ دیر نہ لگی ۔۔۔روپیہ ایک جیب میں نہ تھا ،سارا سارا دن کی گئی اس بلامعاوضہ کی محنت کا بس اتنا ہی معاوضہ ملتا کہ پیٹ بھر ا جاسکے ۔۔۔خالی جیب کوئی اپنی بیٹی یا بہن کیوں بیاہتا ۔وہ اس قابل ہی کہاں تھا کوئی بہن بھی نہیں کہ ادلہ بدلہ کرکے شادی کی جاسکتی ۔تنہا تھا اور شاید ساری زندگی اسی تنہائی میں کٹتی ۔۔۔گھر بسانے کی خواہش وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ شدت کے ساتھ ابھرنے لگی تھی مگر سننے والے اس خواہش کو مجذوب کی بڑ ہی سمجھتے اور ہنس کر چٹخارہ لیتے ۔۔۔پھر اچانک اسے حج کی خواہش ہونے لگی ۔۔یہ خواہش بھی شدید تھی شاید اللہ میاں اسی وسیلے سے اس کا گھر بسا لے یہاں بھی پیکج والا معاملہ تھا ۔۔۔اس نے سن رکھا تھا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے ۔۔۔اس کی شادی کا اب یہی واحد سہارا رہ گیا تھا ۔۔۔یہ بھی رضا تھی اس پر اپنے رب کی کہ اس وقت ویزے اور پاسپورٹ کا کوئی چکر نہ تھا بس مختصر سا سامان بندھا اور تیاری پکڑی ۔دو سال مسلسل پیدل سفر کے بعد بھوک ،پیاس،سردی ،گرمی نے اس کے وجود کو سینتالیس سال میں پچاس سے اوپر کا بنا دیا ۔پہلی دعا اس نے یہی مانگی اپنی عمر سے نظریں چرا کر ۔’’اللہ میاں شادی کے لئے کم سن کنواری لڑکی کا ساتھ چاہیے‘‘ ۔پھر واپسی کے لئے لگ جانے والے دوسالوں نے اس کی عمر کو اور کھا لیا ،مگر اب وہ اپنے ساتھ دعا کی قبولیت کی سند بھی لایا تھا اور پھر دعا قبول ہو گئی ۔اس نے آتے ہی پرچون کی دوکان کھول لی ۔ان پیسوں سے جو وقتا فوقتا وہاں صاحب استطاعت لوگوں کے وسیلے سے اس کی جیب میں آنے لگے تھے ۔اور دوکان بھی حج کی برکت سے خوب چل نکلی ۔اس کے گاہکوں میں اس کا ہمسائیہ بختیار بھی تھا جو اکثر ادھار پر سامان لے جاتا ۔۔۔ادھار تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں چڑھتے چڑھتے لاکھوں تک جا پہنچا ۔اب ایک ہی صورت ہی نمک ،مرچ ۔چینی،پتی اور دالوں کے عوض چڑھنے والی رقم کسی انسان کی صورت لوٹائی جا تی ، ساتھ ساتھ نفع کا بھی قوی امکان تھا۔بختیار کی سولہ سالہ چھوٹی بہن کا ہاتھ امیرزمان کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا اور کچھ رقم ولور کے عوض اس پر مزید لگائی گئی آخر اس کی عمر کے حساب سے اس پر کچھ تو قرض چڑھنا تھا جو اس نے بڑی خوشی سے دینے کا وعدہ کرلیا۔اور پھر حج میں دعا قبول ہو گئی اور اس کا گھر بس گیا۔ اب وہ حاجی صاحب کہلاتا تھا ۔۔۔بڑی عزت بن گئی تھی ۔۔دعا اس کی کیا قبول ہوئی بلکہ اب تو لوگ اس سے اپنے حق میں دعائیں کرانے کے لئے آتے تھے ۔۔۔وہ پاک جو ہو گیا تھا اور ساتھ ہی تحفے ،نذرانے ۔۔۔اس نے اپنے لئے پانچ کمروں اور بڑے صحن والا گھر بنوا لیا ۔دوکان بھی بڑی ہو گئی تھی یہ سب آنے والی کے بخت آور قدم تھے۔۔۔شادی کے اگلے سال اس کے گھر رحمت آئی تو وہ پھولا نہ سمایا گو کہ اسے وارث کی خواہش تھی مگر بیٹی کی آمد سے یک گونہ سکون بھی ۔۔۔کم سے کم بھائی کے لئے ولور کی زحمت نہیں ہو گی بہن ہی وسیلہ بنے گی گھر اس کا گھر بسانے کی۔۔۔اگلے سال پھر رحمت نے اس کے گھر کا رخ کیا ۔۔۔اب تو یہ جواز بھی نہیں بنتا تھا کہ چھوٹی ،کم سن لڑکی سے شادی کرلو تو بیٹے ہوں گے کیوں کہ یہاں میڈیکل ،سائنس سب فیل تھی ۔۔۔یہی یہاں کی جدید تحقیق تھی کہ لڑکی کا کم عمر ہونا اولاد کے معاملے میں اچھا ہے۔ اس طرح بیٹے ہوتے ہیں مگر یہاں کم عمر بیوی کے باوجود رحمتیں تھیں جو مسلسل اس کا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر بے جھجھک داخل ہو رہی تھیں۔ ۔۔حالانکہ چوتھی بیٹی کا نام ’’بلہ نستاہ ‘‘ اور پانچویں کا ’’خاتمہ بی بی ‘‘ رکھ کر ٹو ٹکا آزما ڈالا ۔یہاں ناموں کا اتنا اثر تھا جیسے اس کے نام کے ساتھ جڑا امیر۔۔۔یو ں آٹھ رحمتوں کی آمد نے اس کی امیدکے توانا وسر سبز درخت کو سوکھی ٹہنی بنا دیا جب کہ رشتہ داروں کی امیدیں لہلہانے لگی تھیں ۔۔۔ دوکانیں ،مکان ،آڑو اور شفتالو کا چھوٹا باغ ۔۔۔ ساتھ آٹھ وجود بلکہ نہیں ابھی تو راضمہ بھی جوان تھی ۔۔۔ان کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ۔۔۔امیر زمان کے ٹی بی کے مرض نے تو اگلے تمام مراحل آسان بنا دئیے بس اب اس گھڑی کا انتظار تھا جب وہ سفر آخرت باندھتا اور سب کچھ دسترس میں ۔۔۔وہ تو ماضی میں بھی مزے لوٹ چکے تھے ۔۔۔منہ کو خون ایک بار لگ جائے تو پھر میراث خور ۔۔۔آدم خور بھی بن جاتا ہے ۔۔۔سانسیں کب اکھڑ جائیں ۔۔۔امیر زمان نے تمام رشتہ داروں کے لئے پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا ۔۔۔خشک ہونٹوں پہ بے بسی سے زبان پھیر کر نجانے کتنی مرتبہ تر کرنے کی کوشش کی حوصلہ تھا کہ بار بار دم توڑدیتا ۔۔۔شرم تھی یا موت کا اعلان ۔۔۔کیا کچھ آڑے آرہا تھا ۔۔میرا وقت آخرت قریب آچکا ہے میری بیوی تین ماہ کی حاملہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ بیٹا ہو گا ۔۔۔اس لئے بچے کی پیدائش تک کوئی میری بیٹیوں اور بیوی کا مع میری جائیداد سودا نہیں کرئے گا اگر میری بات حقیقت نہ نکلی تو پھر جو دستور ہے اسی کے مطابق آپ سب کو اختیار ہے ۔۔۔معنی خیز نظروں اورتمسخرانہ ہونے والی کھسر پھسر سے نظر بچا کر وہ ان کی خاطر مدارت میں لگ گیا ۔۔۔پھر چند روز بعد اس کا بلاوہ آگیا اوراس کے بعد اس کے گھر میں آئے دن غیر معمولی گہما گہمی دیکھنے کو ملتی ۔۔۔خواہشات کے ہاتھوں لاچار عزیز وں کا بس نہیں چلتا کہ وہ راضمہ کو دوچار لاتیں رسید کر کہہ دیتے بس بند کرو یہ ڈرامہ ۔۔۔بہت ہو گیا پہلے کون سا بیٹا لے آئی جو اب ہمیں انتظار کی سولی پر لٹکا رہی ہو ۔۔۔وہ تو ان لوگوں کے ہاتھوں بے بس تھے جن کے لئے امیر زمان نے دعائیں کیں اور وہ سو فی صد قبول ہوئیں ۔۔۔اب ان کے کام تو ویسے ہی ہونے تھے بس بہانہ امیر زمان کی زبان بنی تھی ۔اس لئے انہی قوی یقین تھا کہ وہی ہو گا جو امیر زمان کہہ گیا ۔۔۔اب ان عقل کے کھوٹوں کو کون سمجھاتا کہ وہ ایسا ہی ولی اللہ تھا تو آٹھ مرتبہ اس کی خواہش اور منشاکے مطابق نتیجہ کیوں نہیں نکلا ۔۔ان کی اس عجیب و غریب منطق نے عزیزوں کے ہات باندھ رکھے تھے ورنہ وہ کب کے کامیابی سے تمام مراحل طے کر چکے ہوتے ۔۔۔راضمہ کی طبعیت کی خرابی کی خبر ان کے چہروں پر مسرت کے پھول کھلا گئی وہ سب آج جمع تھے نتیجہ ۔۔۔یقین تھا ان کی منشاء کے مطابق ہی نکلے گا اور پھر ان کے ابلیسی منصوبوں کی زمانہ قدیم کے دستور کے مطابق فتح ہونی تھی ۔۔۔وہ بانٹ رہے تھے ،حصے بخرے بنائے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ صحن ان کی تلخ کلامی اور بحث و مباحثے سے جنگ و جدول کا نقشہ پیش کرنے لگتا ۔۔ہر ایک جوش و جذبے سے ساتھ نئی تجویز سے میدان میں کود پڑتا ۔۔۔چشم تصور میں سب کچھ اپنا ہوتے دیکھ کر ان کی خوشی دیدنی تھی جس کا برملا اظہار ہو رہاتھا ۔۔۔مگر نو مولود خوشحال خان کی آمد پر عجیب منظر تھا ۔۔۔ہر طرف آنسو ۔۔۔رونا ۔۔۔آنسو کی لڑیاں جو اب تک خوف کے ٹھنڈے سمند ر سے منجمد تھیں ۔۔۔بہنے لگی شکست و فتح دونوں نے ہی نتیجہ آنسو کے ساتھ قبول کیا۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *