Home » پوھوزانت » سائیں جی ! آپ خوش قسمت نکلے ۔۔۔ قلا خان خروٹی

سائیں جی ! آپ خوش قسمت نکلے ۔۔۔ قلا خان خروٹی

کچھ لوگ موت کو پردہ قرار دیتے ہیں جو بلاشبہ تجربے سے ثابت ہے کہ کمزوریوں اور عیوب کو چھپانے کاکا م بھلا موت سے زیادہ کون کرسکتا ہے۔ مگر آج حالات نے ایک ایسے دو راہے پہ لاکے کھڑا کر دیا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی موت کو خوش قسمتی سے تعبیر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ آپ خود سو چیں یہ ایک ایسا شخص آپ سے مخاطب ہے کہ ایک فلم میں بھی دنیا کی بربادی اور موت کا ننگا ناچ دیکھنے کو ملے تو ایک ہفتے کیلئے اُسی trance سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ خاکم بدہن !میں یہ ہر گز نہیں کہنا چاہتا کہ سائیں جیسی شخصیت کی رخصتی بھی ۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ سائیں کو بھر پور زندگی گزارنے کا موقع ملا ، اپنی بساط سے بڑھ کر لوگوں کو دیا اور جب کچھ حاصل کرنے کا موقع آیا تو وہ دامن بھی نہ پھیلایا جس میں سو چھید تھے۔
سائیں جی! آپ پر اس لیے بھی قسمت کی دیوی مہربان محسوس ہوتی ہے کہ آپ کوماما عبداللہ جان جمالدینی اور ڈاکٹر خدائیداد جیسے دوستوں کا ساتھ ملا ۔ آپ کو ڈھیر سارے سیاسی شاگرد اور رفقاء بھی ملے جو آپ سے عزت اور محبت کے بندھن میں موت کے بعد بھی جڑے ہوئے ہیں۔ سائیں ایک عام انسان کی موت نہیں مر ااس لیے اُ ن ورثا میں چند بیٹے اور بیٹیاں نہیں بلکہ ہم سب سائیں کے وارث ہیں ، درد کا رشتہ ہر دوسرے رشتے سے افضل اور برتر جو ہوا۔ سائیں یوں بھی قسمت کا دھنی نکلا کہ جس عمارت کی تعمیرکیلئے اُنہوں نے اپنی خوابوں کے اینٹ بنائے ، جس میں لہو اور وطن کی مقدس مٹی کا ملاپ ہوا تھا ،ان کو محنت کی بھٹی گزارا اور اپنے دوستوں سے وعدہ لیا کہ تعمیر کا مواد اور عمارت کا نقشہ آپ کے سامنے ہے مناسب تنظیم کی ضرورت ہے اور بس آنکھوں کو خیرہ کرنے والی عمارت بہت جلد آپ کے سامنے ہوگی یہی کہنا تھا کہ اُن کے بلاوے کا وقت آگیا۔وہ اطمینان سے دارفنا سے دار بقا کو چل بسا ۔ اچھا ہوا آپ کو خواب دیکھنے کا خوش کن منظر دیکھنا نصیب ہوا اور بس۔تعمیر کا مواد گلی کے چھوٹے موٹے طفیلیے اور جی حضوری جبکہ عمارت کا نقشہ لگتا ہے گائے کھاگئی اور رہ گیا انجنئیر وہ شاید چائنا کے انجنئیرز کی طرح عدم تحفظ کا شکار ہے اس لیے آس پاس نظر نہیں آتا۔
بس سائیں جی ! یہ صدمہ سہنے کے لیے صرف ہم بد قسمت رہ گئے ہیں ، سائیں جیسے نصیبوں والے نہیں جو موت کی آغوش میں جا کر سو گیا ہے۔

سائیں جی! آپ اس لیے بھی خوش قسمت ہیں کہ آپ کی موت کا سبب بوڑھاپا یا بیماری بنا، آپ ذرا دیر کیلئے سوچیں اگر یہی موت فراموشی کے سبب آجاتی تو کتنی اذیت ناک ہوتی۔ آپ تولمبی تان کے سوگئے مگر آپ کا ایک دیرینہ رفیق اس لیے کراہ رہا ہے کہ اُن کی آوازیں صدا بصحرا ثابت ہورہی ہیں اُن کا گناہ بس یہی ہے اُستاد ہوکر بھی وہ شاگردوں کے پیچھے رہا، کبھی نام و نمود کی خواہش نہ رکھی حتیٰ کہ اپنے نام کی وال چاکنگ سے بھی منع کرتے رہے؛ ہر طرح کی خواہشات کو پاؤں تلے روندھ ڈالااس لیے کہ وہ کوہ سلیمان جیسی دیو قامت خواہش کے سامنے باقی سب آرزؤں کو جوتی کی نوک پہ رکھتا تھا۔ اور یہ تو اُنہوں نے کچھ یوں ثابت کیا کہ اپنے علاج کو بھی تنظیم سے جوڑ دیا۔ جی ہاں وہ جس بات کی تاکید زندگی بھر کرتے رہے کہ انسانوں میں نظم ہی سب سے بڑی خوبی اور تہذیب کی نشانی ہے اور یہ بھی کہ نظم وضبط ہو تو غلامی جیسی قبیح شے بھی manageableہو جاتی ہے۔ مگر اب اُن میں زندگی کی تمنا نہ ہونے کے برابر ہے ۔اُنہوں نے جس تناور درخت کی زندگی بھر آبیاری کی اُ س کی شادابی پر سمجھوتہ اُسے موت سے بھی زیادہ اندوہناک لگتا ہے۔بھلا کوئی جیتے جی اپنے کھال کو اُترتے کیسے برداشت کر سکتا ہے ۔
مروت کی یہ کمی یقیناًہمیں ڈبونے کیلئے کافی ہے ۔لحاظ اور وہ بھی اپنے مہربان اور بے لوث اُستاد کا ، فرض کفا یہ نہیں بلکہ فرض عین ہے جن کو ہم بھول گئے ہیں ۔
سائیں جی ! میں آپ کو کیا کہانیاں سناؤں ، یہ تو یوں ہے جیسے کو ئی مچھلی کو تیرنا سیکھانے بیٹھ جائے۔ بہرحال آپ کی نظر سے روم والوں کی کہانی تو ضرور گزری ہوگی ۔ جب وہ تخت شاہی پر متمکن تھے اور انتظام سنبھالنے سے رہے تو کھیل کود میں لوگوں کو مصروف رکھنے کی سوجھی۔ آپ ہوتے تو پتہ چلتا کہ آپ کے اپنے لوگوں کو حقوق کا ہوش ہی نہیں وہ جنازے اُٹھانے سے فارغ نہیں۔ اس لیے کہ حکمرانوں کی لاٹری نکل آئی ہے ہماری بیگناہی کے موت مرنے پر۔ جشن اس لیے نہیں منائے جاتے کہ کوئی معقول وجہ کارفرما ہو بلکہ اس لیے کہ رومن شاہوں کا فرمودہ سن کر بھنگڑے اور اتن کئے جارہے ہیں ۔ یہ صرف گولیاں ہیں اور وہ بھی کیفین سے بھرپور۔ آپ کو اس بات پر حیرت ہوگی قبرستانوں اور ایوب اسٹیڈیم کی قسمت ایک ساتھ جاگ گئی ہے ، دونوں میں بلا کا رونق ہے۔
سائیں جی! اب بھی ڈھیر سارے تبدیلی کے تندور کو گرم رکھنے کیلئے بھاڑ بننے کو تیار ہیں وہ چاہتے ہیں کہ خس و خاشاک کی طرح ہی سہی مگر اُن کے پیدا کردہ شعلے کی گرمی اورروشنی پر اجارہ داری قبول نہیں اور دوسری طرف ہاتھ تھاپنے والے نجانے کیوں بھاڑ جھونکنے کے عمل میں مصروف رہتے ہوئے بھی اس حقیقت سے غافل رہے کہ ان تنکوں کی کیا اہمیت ہے۔
سائیں جی! مجھے یاد ہے آپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ دولت کی طرح اہمیت اور طاقت کا ارتکاز برابر ضرر رساں ہیں۔ کسی ایک شخصیت اور خاندان کو مقدم رکھنا اور یہ سوچنا کہ ان کے بغیر گزارہ نہیں ، ترقی پسندی کے رُو ح کے خلاف ہے۔ آپ نے Charles De Gaulleکا یہ تاریخی جملہ بھی دہرایا تھا کہ
“The graveyards are full of indispensble people.”
سائیں جی ! یاد ہے ہم نے سن کر اور آپ نے اس قول کو زبان سے ادا کرنے کے کتنے چسکے لیے تھے مگر پتہ نہیں کیوں آپ سمیت ہم سب اس خوشی میں بھول گئے کسی کو کون indispensable بنا رہا ہے اور یہ بھی کہ پھر چاہتے ہوئے بھی یہ طوق نہیں اُتار سکیں گے۔
سائیں جی ! آپ کا پسندیدہ رنگ ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔ وہ سرخی جو محنت کی علامت تھی ، آہستہ آہستہ سبز ی مائل ہوتا جارہاہے۔ اور وہ ساتھی جن کے ہاتھوں کی کرختگی پر آپ فخر کرتے تھے اُ ن کے ہاتھ اب اتنے ملائم ہوگئے ہیں کہ ایک مُلا کے ہاتھ بھی شرم سے پانی پانی ہوجائے۔ ہم بولتے ہیں لیکن بے موقع ۔ ہمار ی پرواز اپنی نفس سے اُوپر نہیں جاتا ۔ بس ہماری گاڑی میں صرف پیٹرول ڈلتا ہے اور مو بل آئل تبدیل کرنے کا خیال نہیں آتا ، جی ہاں ہم صرف خوراک لیتے ہیں جو جسم کیلئے ہے اور روح بیچاری تو بھوک سے نڈھال ہے۔ یقیناًیہ آپ اور کتاب سے دوری کے سبب ہو رہا ہے ۔ہم بیشک سانس لیتے ہیں مگر دماغ کی کھڑکیا ں ایک دم بند ہیں۔ ہم تو پہلے بھی آپ کی رخصتی کو ایک مجسم کتابخانے کے انہدام سے تعبیر کیا تھا ۔ آپ کے بغیر ہم حضرت جون ایلیا کے اس شعر کے مصداق ہو گئے ہیں کہ
ہم مقفل حویلیوں کی طرح
منہدم ہو رہے ہیں اند ر سے

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *