Home » پوھوزانت » جو کہ بچھڑ چکے ہم سے ۔۔۔ عزیز بگٹی

جو کہ بچھڑ چکے ہم سے ۔۔۔ عزیز بگٹی

میرعبداللہ جان جمالدینی بھی آخر ہم سے بچھڑ گئے ۔ اناللہ وانا علیہ راجعون
حقیقتوں میں سب سے بڑی حقیقت موت کو سمجھا جاتا ہے حالانکہ موت زندگی کا انت ہر گز نہیں ہے۔ زندگی میں موت اور موت میں زندگی کا راز پوشیدہ ہے ۔ جس شخص نے زندگی میں خدمات انجام دی ہوں وہ ہمیشہ امر رہتا ہے چاہے وہ قومی وقار وناموز کی خاطر اکبر بگٹی کی حیثیت میں شہید ہوا ہو، عبدالستار ایدھی کی طرح عوام کی خدمت کی ہو، یا بلوچی ادب و سماج کے بارے میں قلم ہاتھ میں لئے رہے ۔
میر مٹھا خان مری، میر گل خان نصیر ، ملک محمد پناہ ، بابو شورش ، آزاد جمالدینی، عبدالرحمٰن غور، میر عاقل خان مینگل ، آغا نصیر خان احمد زئی ، میر سردار خان گشکوری ، بشیر احمد بلوچ ، چاکر خان بلوچ اور دیگر نام شامل ہیں۔میر عبداللہ جان جمالدینی اس دور کے سلسلے کا آخری نام ہے جو رخصت ہوگیا۔ وہ اگر چہ کافی عرصے سے علیل تھے لیکن بہر حال ہمارے درمیان موجود تھے۔ اب اگرچہ وہ جسمانی اعتبار سے ہم سے الگ ہوگئے لیکن یاد وں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
پھر ایسا بھی ہوا کہ اُن کی بیگم نے بھی ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا اور یوں بلوچستان میں ارواح کے ملاپ کی ایک اور کہانی وجود میں آگئی۔
میں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ بلوچستان میں نوشکی کا علاقہ ایک مردم خیز علاقہ رہا ہے جہاں نامور افراد جنم لیتے رہے ۔ چند کا ذکر اوپر ہوچکا ہے ۔ اس وقت بھی منیر بادینی، اکرم دوست جمالدینی اور محترم یار جان بادینی کا تعلق اسی خطے سے ہے جو ایک فرد کی حیثیت میں اپنے ہی وس اور وسائل کے ساتھ دو ماہنا مے باقاعدگی سے شائع کرتا ہے۔ نیز اپنے اشاعتی ادارے سے کتب کی اشاعت کا اہتمام بھی کرتا ہے ۔
شوگر کے زخم کے باعث دس برس قبل کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں میرا دایاں پاؤں گھٹنے کے نیچے کاٹ دیا گیا تھا اُس وقت سے میں تقریباً خانہ نشین ہو کر رہ گیا۔ میں بعض قریبی دوستوں کا شکر گزار ہوں جو مجھے ملنے میرے گھر آجاتے ہیں ۔ میری کہیں آمدو رفت تقریباًختم ہوگئی ۔ اس لئے شادی غمی کی تقریبات میں شرکت ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔
میر عبداللہ جان جمالدینی کی وفات پر بھی ڈاکٹر شاہ محمد مری کے ذریعے اپنی ماتمی حاضری لگائی ۔کچھ عرصہ قبل محترم وکلا کا جو اندوہناک سانحہ ہوا جس میں میرے بعض عزیز ترین مہر بان احباب کے بیٹے شہید ہوگئے مثلاً ڈاکٹر مالک کاسی ، پروفیسر افضل کاسی، سینیٹر جہان زیب جمالدینی کے فرزندانِ عزیز ۔ لیکن میں کسی کے پاس تعزیت کے لئے نہ جاسکا۔ میں گویا خودہی پرسہ اور خود ہی دلاسہ ہوں جو بہت ہی تکلیف دہ ہے ۔ زندگی بہر حال صبر وشکر کا نام ہے ۔ امید ہے سارے احباب اس کیفیت کو سمجھ جائیں گے ۔
میر عبداللہ جان جمالدینی تو میرے مہربان بزرگ ہونے کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی میں میرے کولیگ یعنی ساتھی بھی رہے ۔ جو ناقابل فروش سنگتی تھا۔ میں نے اُن دنوں ان کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ اس کی اشاعت کا مناسب ترین پرچہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کا سنگت ہی تھا اور اسی میں شائع ہوا۔ ماما کی وفات کے بعد مناسب یہی ہے کہ اُن کے اسی انٹرویو کی دوبارہ اشاعت ہو ۔ ماما کی حیات اور خیالات کے بارے میں یہ اس لئے مستند ترین تحریر ہے کہ یہ ماما عبداللہ جان نے اپنے ہی قلم اور اپنے ہی ہاتھ سے تحریر کی تھی ۔
لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ ’’ اس کی اشاعت اُس کے اپنے پرچے ’’سنگت ‘‘کے علاوہ ماہنامہ ’’بلوچی زند‘‘ ماہنامہ’’ بلوچی‘‘ اور ماہنامہ ’’ بلوچی دنیا‘‘ میں بھی ہوتاکہ زیادہ سے زیادہ اس کا مطالعہ کرسکیں اور ماما کے لئے دعائیں کریں۔
جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں بحیثیت لیکچرر شعبہ سیاسیات کام کرتا تھا۔ اس وقت یونیورسٹی کا ماحول کافی حد تک علمی تھا۔ جناب بھٹو نے اپنے دور اقتدار کے آخر میں صوبے کی واحد یونیورسٹی میں ایک فوجی افسرکو بحیثیت وائس چانسلر تعینات کیا تھا۔ جس طرح اُس وقت بلوچستان فوجی آپریشن کا شکار تھا، اس کی واحد یونیورسٹی کو بھی فوجی تسلط کے تحت لایا گیا تھا۔ ایک ماہر تعلیم اور دانشور پروفیسر کرار حسین کے بعد ایک فوجی وائس چانسلر کی تقرری ایک عجیب سی بات تھی لیکن خوش قسمتی سے اس نے ادارے کی علمی سرگرمیوں کو ماند نہیں ہونے دیا۔ یونیورسٹی ایک ڈرل ماسٹری اور تھانے چوکی والاادارہ نہیں بنا تھا۔ اب تو یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کتابوں سے زیادہ فورسز اور ان کے ہتھیار دیکھتے ہیں ۔ شاید اسی لئے وہاں ہتھیاروں والا ذہن اور کلچر پروان چڑھ رہا ہے ۔ دراصل بلوچستان یونیورسٹی میں صرف میر غوث بخش بزنجو ، نواب اکبر خان بگٹی اور میر اختر مینگل کے ادوار میں ہی عالم وفاضل اشخاص یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت میں تعینات ہوئے تھے وگرنہ بیشتر اوقات میں اس پر فوجی اور سول بیوروکریٹ ہی مسلط رہے۔
اُس وقت میر عبداللہ جان جمالدینی ، میر عاقل خان مینگل ، نادر قمبرانی ، پروفیسر شکر اللہ بلوچ، پروفیسر بہادر خان رودینی ، پروفیسر مجتبٰے حسین اور ڈاکٹر رشید احمد جالندھری جیسے پائے کے اساتذہ موجود تھے۔ ان کے علاوہ یونیورسٹی لائبریری کا انچارج جناب کاظمی جیسا علم دوست آدمی اپنا وجود محسوس کراتا تھا۔ شعبہ بلوچی ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی ہمسائیگی میں واقع تھا۔ میں اکثر وبیشتر شعبہ بلوچی میں آجاتااور پھر ہم دونوں کتب خانہ میں کاظمی صاحب کے پاس چلے جاتے ۔ کاظمی صاحب مطالعے کے شوقین تھے اور باغ وبہار قسم کے آدمی تھے ۔ ماہ رمضان کے دوران تو وہ ہم دونوں کے لئے بہت ہی واجب احترام بن جاتے تھے چونکہ وہ اپنے پاس دن کے وقت افطار کا باقاعدہ اہتمام کرتے تھے۔ میں اور میر عاقل خان ان کے اس لطف وکرم سے مستفید ہوتے ۔ کاظمی صاحب میرے لئے یوں بھی واجب احترام تھے چونکہ جب بھی لائبریری کے لئے کچھ کتب آجاتیں تو وہ میری پسند اور دلچسپی کی کتب سب سے پہلے مجھے دکھاتے اور وہ کتب لائبریری رجسٹر میں درج ہونے سے قبل مجھے مطالعے کی غرض سے مل جاتیں۔ ایک مرتبہ جب ہم ان کے پاس گئے تو وہ کافی خوش نظر آئے ۔ پوچھنے پر بتایا کہ چانکیہ کی کتاب کو تلیہ ان کے کسی دوست نے ان کے لئے انڈیا سے بھیجی ہے ، پڑھنے کی چیز ہے ۔ چانٹرکیہ کا نام بہت سنا تھا۔ مہاراجہ اشوک کا دانا وزیر اور مفکر ۔ مگر اس کی کوئی تحریر مطالعے کے لئے نہیں ملی تھی۔ فوراً ہی کاظمی صاحب سے کتاب لے لی ۔ گھر آکر اس کا سر سری مطالعہ کیا۔ کتاب میکاولی کی’پرنس‘ کے پائے کی لگی۔ کتاب ہندی اور انگلش میں تھی ۔ کافی ضخیم کتاب تھی ۔ رات کو جب میں نواب اکبر خان بگٹی کے گھر گیا تو کتاب میں نے مطالعے کی غرض سے انہیں دے دی۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد کاظمی صاحب نے ویسے ہی کتاب کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں بتایا کہ فی الحال تو وہ کتاب نواب بگٹی کے زیر مطالعہ ہے ۔ اس کے بعد ہی میں اس کامطالعہ کر سکوں گا۔ اس پر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا کہ نواب صاحب سے زیادہ کون اس کتاب کا قدردان ہوسکتا ہے ۔ وہ جب تک چاہیں کتاب اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ بہر حال مذکورہ کتاب اس وقت تک نواب صاحب کے پاس رہی جب تک تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہی کتاب پاکستان میں’’ارتھ شاستر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ میں نے وہ کتاب نواب صاحب کو پیش کی تو انہوں نے کاظمی صاحب والی کتاب مجھے واپس کردی جو میں نے کاظمی جی کو لوٹادی۔
میر عبداللہ جان سے بلوچستان کی تاریخ اور بلوچی ادب کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی تھیں۔ ان دنوں نیشنل بک کونسل آف پاکستان کی جانب سے ’’کتاب ‘‘کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ شائع ہوتا تھا۔ اس میں ملک بھر کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات یکجاکی جاتی تھیں ۔ میں بلوچستان کی ادبی اور اشاعتی سرگرمیوں کے بارے میں ماہانہ رپورٹ ارسال کرتا تھا۔ ایک بار ادارے نے مجھ سے درخواست کی کہ میں میر عبداللہ جان کا انٹرویو کر کے اشاعت کی غرض سے ’’کتاب ‘‘ کو بھیج دوں ۔ میرے لئے وہ اعزاز کی بات تھی۔میں نے میر صاحب سے اس بارے میں بات کی اور ان کے دفتر میں ساتھ تصویر بھی اتاری۔ میر صاحب نے اس حد تک مہربانی کا مظاہرہ کیا کہ سوال نامہ مجھ سے لے کر خو دہی اُن کے جوابات اپنے ہاتھ سے تحریر کر کے میرے حوالے کردیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ میں بہت جلد تعلیم کی غرض سے امریکہ چلا گیا اور وہ انٹرویو مرتب ہونے سے رہ گیا اور جب میں وہاں سے واپس آیا تو شاید وہ پرچہ بند ہوگیا تھا ۔ لیکن میں نے میر عبداللہ جان کے انٹرویو کو محفوظ رکھا وہ میرے ریکارڈ میں موجود رہا۔ ابھی حال ہی میں میں نے اس کا مطالعہ کیا ور محسوس کیا کہ اس کی اہمیت اور افادیت اب بھی اسی طرح قائم ہے اور موجودہ وقت میں ماہنامہ ’’سنگت‘‘ ہی اس کی اشاعت کے لئے موزوں ترین پرچہ ہے ۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری ’’سنگت‘‘ کے مدیر ہونے کے علاوہ ماما کے سنڈے پارٹی کے باقاعدہ ممبر ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ادارے کی جانب سے میر عبداللہ جان جمالی کی گئی کتب کی اشاعت کا اہتمام کر چکے ہیں ۔ میں مذکورہ انٹرویو کو کسی تبدیلی ، ترمیم اور کمی بیشی کے بغیر اپنے قارئین کی نذر کرتاہوں۔
اس میں میر عبداللہ جان کی اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ اپناایک مختصر کو ائف اور انٹرویو شامل ہے ۔ ان کی لکھائی اس قدر صاف اور واضع ہے کہ اسے Re.Write(دوبارہ تحریر) کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ کمپوزنگ میں دقت کا کوئی احتمال نہیں ہے ۔ میں اپنے دوست سے یہ درخواست ضرور کرتا ہوں کہ تصویر اور انٹرویو کی اصل کاپی مجھے واپس کردیں۔
اُس وقت ماما یونیورسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ تھے۔ اب وہ اگر چہ ملازمت سے ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن عالم آدمی کبھی بھی علمی سرگرمیوں کو ترک نہیں کرتا۔ وہ انہیں آج تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس وقت تک میر صاحب کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ اب ان کی کئی کتب شائع ہوچکی ہیں۔ان میں سے ’’لٹ خانہ‘‘ نے کافی مقبولیت حاصل کی۔ یہ محض ان کی یاد داشتیں نہیں ہیں بلکہ ایک دور کی تاریخ ہے ۔ اب ان کا انٹرویواُن کی کہانی خود ان کی زبانی۔
Bio data
عبداللہ جان جمالدینی
پیدائش :جمالدینی ، نوشکی ، ضلع چاغی
تاریخ پیدائش :8مئی 1922
ابتدائی تعلیم :مدرسہ گھر اور پھر گورنمنٹ مڈل سکول نوشکی
مڈل ، 1938گورنمنٹ مڈل سکول نوشکی
میٹرک ، 1940سنڈیمن ہائی سکول پشین
بی ۔ اے ( آنرز فارسی میں ) 1945اسلامیہ کالج پشاور
ایم اے ۔ (اردو) 1975بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ
ایم اے ( بلوچی) 1988بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ
1) گریجویشن کے بعد پانچ سال بطور نائب تحصیلدار کے سول سروس میں رہا ۔ پھر یہ ماحول پسند نہ آیا تو 1950میں استعفیٰ دے دیا۔
2) بلوچی ادب کی جانب متوجہ ہوئے اور 1951میں بلوچی زبان کا پہلا ادبی انجمن ’’بلوچی زبانئے دیوان‘‘ گل خان نصیر کی صدارت اور غلام محمد شاہوانی کی نائب صدارت میں اور خود جنرل سیکرٹری سے قائم کیا۔ مرحوم عبدالکریم شورش بھی انجمن سے منسلک تھے۔
3) قدیم بلوچی اشعار لوگوں سے جمع کرتا رہا اور بلوچی کی مختلف مطبوعات میں شائع کراتا رہا۔
4) 1956میں میرے بھائی عبدالواحد آزاد جمالدینی نے کراچی سے مشہور ماہنامہ ’’ بلوچی ‘‘شائع کرنا شروع کیا تو کراچی چلا گیا اور آزاد کا معاون رہا ۔اس دوران سوویت مرکز اطلاعات کی پبلیکیشن ’’ سوویت خبریں ‘‘ میں بطور ملازم کام کرتا رہا۔ جب ماہنامہ ’’بلوچی‘‘ کو مالی مشکلات کی وجہ سے بند کرنا پڑا اور آزاد کوئٹہ آئے تو مجھے بھی کوئٹہ آنا پڑا۔
5) 1960سے ایک مہربان دوست ملک محمد عثمان کاسی کی شراکت میں چلتن میدیکل ہال میں کام شروع کیا۔ ون یونٹ کے خلاف پر زور تحریک چلی تو ملک محمد عثمان کے ہمراہ نیشنل پارٹی میں حصہ لیا۔ جیل ہوا اور دوکان ختم ہوئی۔
6) 1966میں پھر کراچی میں ملک عثمان کاسی کی شراکت میں سبزی منڈی میں کام شروع کیا۔ یہ کاروباری ماحول پسند نہ آیا اور دل برداشتہ ہوا۔ انہیں دنوں دوبارہ سوویت مرکز اطلاعات سے ماہنامہ ’’طلوع‘‘ کا اجراء ہوا۔ ماہنامہ کی مجلس ادارت میں پھر ملازمت اختیار کی اور بطور جائنٹ ایڈیٹر کا کام کیا۔
7) 1979میں کراچی چھوڑ کر پھر کوئٹہ آیا۔ پاکستان براڈ کا سننگ کارپوریشن کوئٹہ میں بطور براہوی ، بلوچی نیوز ٹرانسلیٹر کا کام کیا اور بعد میں بلوچی اکیڈمی میں بطور ریسرچ فیلوکا ملازم ہوا۔
کراچی میں قیام کے دوران ’’بلوچی اکیڈمی‘‘ کراچی اوربعد میں ’’ ملاّ فاضل اکیڈمی‘‘ کراچی سے منسلک ہوا۔
8) نومبر 1974میں بلوچستان یونیورسٹی میں مرکز مطالعہ پاکستان قام ہوا اور بلوچی کا ایک ڈپلو ماکورس ادیب ، عالم ، فاضل کے لئے شروع ہوا۔ بطور لیکچرر لے لیا گیا۔ تب سے یونیورسٹی میں بلوچی کا استاد ہوں۔ 1985سے ایم ۔ اے بلوچی شروع ہوا ہے اور اسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوا۔
9) 1984سے اکادمی ادبیات پاکستان سے بھی منسلک ہوں اور اس کے بورڈ آف گورنر اور پبلیکیشن کمیٹی کا بھی ممبر ہوں۔
اب تک کوئی باقائدہ کتاب شائع نہیں ہوئی۔ مختلف ادبی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالے پڑھے ہیں اور ا ن کی مطبوعات میں مقالے شائع ہوئے ہیں ۔ خصوصاً اکادمی ادبیات پاکستان کی مطبوعات میں۔
10) بلوچی اکیڈمی ۔ کوئٹہ کی مجلس عاملہ کا ممبر ہوں ۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ادبی پروگراموں میں اکثر شرکت ہوتی ہے ۔
میر عبداللہ جان جمالدینی کا عزیز بگٹی کو انٹرویو
س: پورا نام
ج : میرا پورا نام عبداللہ جان ہے ۔ چونکہ میرا تعلق رخشانی قبیلہ کے زیر یں شاخ جمالدینی سے ہے اور اسی مناسبت سے میرے گاؤں کو بھی جمالدینی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، لہٰذا میرا فامیل یعنی خاندانی نام بن گیا ہے ۔ یہاں میں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں پیار کی بنا پر نام کے ساتھ ’’جان ‘‘ لگایا جاتا ہے ۔ اس لئے ہمارے کان اس لفظ سے مانوس ہوئے ہیں ۔ اگر مجھے کوئی صرف عبداللہ کہے تو مجھے عجیب سا لگتا ہے ۔ گویا یہ میرا نام نہیں۔
س: گھریلو نام
ج: مجھے گھر میں بھی عبداللہ جان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
س: بہن بھائی ۔
ج: میں اپنے والدین کا چوتھا بچہ پیدا ہوا۔ سب سے بڑے میرے مرحوم بھائی آزاد جمالدینی تھے ۔ ان کے بعد میری بہن پیداہوئی۔ جو شادی کے بعد دوبچے پیچھے چھوڑ کر فوت ہوئیں۔ ان کا بڑا بچہ لڑکا پیداہوا جو ڈاکٹر خانجہان ہیں۔ مجھ سے پہلے ایک بہن پیدا ہوئیں وہ بچپن میں وفات پاگئیں ۔ میرے بعد بھی ایک بہن پیدا ہوئیں وہ بھی بچپن میں ہی گاؤں میں جب وبا پھیلی تو اس کی نذر ہوگئیں۔میں بھی اس عارضہ میں مبتلا ہوا تھا مگربچ گیا ۔ مگر گاؤں میں کئی افراد اس وبا کے باعث لقمہ اجل ہوئے۔
میرے بھائی آزاد جمالدینی نے بلوچی شاعری اور بلوچی ماہنامہ ’’بلوچی‘‘ کے ذریعہ بلوچی زبان کی خدمات کر کے بڑا نام پایا اور اسی خدمت میں سرطان کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر ستمبر 1981میں وفات پاگئے۔
س: نفرت
ج: مجھے سب سے زیادہ جس چیز سے نفرت ہے وہ ’’ جنگ‘‘ ہے ۔ جیسی بھی جنگ ہو مجھے اس سے نفرت ہے ۔ مجھ سے آدمی کا خون بہانا برداشت نہیں ہوتا۔جنگ عالمی ہو، علاقائی ہو یانسلی ، قبائلی ہویا مذہبی مجھے اس سے نفرت ہے ۔ مجھ سے تو دو آدمیوں کی آپس کی لڑائی میں تُو تُو میں میں بھی نہیں دیکھی جاسکتی۔ مجھے آزاد جمالدینی کی وہ نظم جس کا عنوان ہے ’’ماامن لوٹن ‘‘ ( ہم امن چاہتے ہیں) ۔ بہت پسند ہے ۔ انہوں نے میرے جذبے کی نہایت ہی زور دار طریقہ سے ترجمانی کی ہے ۔
تُف تُف بہ جنگا
بمب وتُپنگا
خونخوار پشنگا
بے نام وننگا
امن ئے پُلنگا
لعنت بہ جنگا
استن ما انسان ما امن لوٹن
ترجمہ اس کا میرے دوست محترم انجم قز لباش نے یوں کیا ہے :
ہم امن پر حملہ کرنے والے بے حیا چیتوں، بموں ، توپوں
اور خونخوار گولیوں سے اپنی بے پنا ہ نفرت کا اظہار کرتے ہیں
ہم انسان ہیں اور دائمی امن کے خواہاں ہیں
اِس لئے ہم جنگ سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
میں اکثر اپنی تحریروں میں بلوچی زبان کے مایہ ناز اور مہر ومحبت کے نقیب کلاسیکی ادیب مست توکلی کے اس شعر کو بیان کرتاہوں:
جواں نہ ینت جنگانی بذیں بولی
کئے وثی دوستیں مڑدماں رولی
ترجمہ: جنگوں کی بُری زبان اچھی نہیں
کون اپنے پیاروں کو لئے در بدر پھرتا رہے
اگر آپ مجھے بزدل کہنا پسند نہ کریں تو یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کمزور دل کا آدمی ہوں۔
میری ایک کمزوری کا توآپ کو ابھی ابھی علم ہوا مگر میرے خیال میں میری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ میں انکار نہیں کرسکتا۔بسا اوقات مجھے انکار کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود میں انکار نہیں کرسکتا ۔ اپنی اس کمزوری کے باعث اکثر تکلیف میں رہتا ہوں۔
س: زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟
ج: بنی نوع انسان کی زندگی میں جنگ ، ظلم تشدد اور استحصال کے خاتمہ کو دیکھنے کی بڑی خواہش ہے ۔ مگر اپنی کمزوری طبع کے سبب اس کے لئے جدوجہد میں بھر پور حصہ نہیں لے سکا ہوں اس کا ملال ہے ۔
میں تو شیخ سعدی علیہ الرحمت کے قول کے مطابق اپنے آپ کو آدمی کا مستحق نہیں سمجھتا !
بنی آدم اعضائے یک دیگر ند
کہ از آفرینش زیک گوہر ند
چو عضوے بدرد آورد روزگار
دگرعضو ہار انماند قرار
تو از حالت دیگراں بے غمی
نہ شائد کہ نامت نہند آدمی
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ نے بھی تو یہی کچھ فرمایاہے۔
آدمیت احترام آدمی
باخبر شوراز مقام آدمی
س: قابل احترام شخصیات
ج: میرے لئے وہ تمام انسان قابلِ احترام ہیں جنہوں نے انسان کی بھلائی اور ترقی کے لئے جدوجہد کو اپنا شعار بنایا اور زندگیاں وقف کردی ہیں۔ لہٰذا وہ تمام پیغمبر ، اوتار ، مصلح اور راہنما عزت و حرمت کے لائق ہیں۔ جنہوں نے انسانوں کو جہالت ، تعصب ، برادرکشی اور قوم پرستی کی تاریکیوں سے نکالاہے ۔ سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے انسانی امراض دکھ درد جسمانی مصیبتوں کا مداوا کیا۔ فلسفیوں، مصلحوں ، نظریہ دانوں نے انسانی شعور کو جلا بخشا اور اسے انسانی فکری ترقی کا راستہ سمجھایا۔ادیبوں ، شاعروں ، مصوروں اور ہنر مندوں نے ہماری جذباتی اور روحانی تسکین ، آسودگی ، ترتیب وترقی کا سامان بہم پہنچایا۔ انہوں نے محبت ،شفقت ، درگزر اور برداشت کی تعلیم دی اور زندگی میں حسن کی تلاش اور اس کے اقدار کا سبق دیا۔ زندگی میں آسائشوں زیبائشوں اور فنون سے انسانی لگاؤ انہی ہنر کاروں کا دین ہے ۔
میری زندگی اور طبیعت کو سنوارنے میں والدین ، خصوصاً میری والدہ اور درویش صفت چچا فقیر جان کی تربیت کو بہت دخل ہے ۔ میرے اساتذہ کرام جنہوں نے میری پرائمری سے لے کر کالج تک میری راہنمائی کی اور زندگی کا راستہ بتایا اور میرے لئے آئیڈیل بن کر اپنی راہ ڈھونڈ نے میں میری مدد کی۔ یہ سب میرے لئے قابل احترام شخصیات ہیں۔ میں ان سب کا بے حد شکر گزار ہوں ۔
س: کتاب یا کتابیں جن سے متاثر ہوئے
ج: ابتدائی تعلیم یعنی پرائمری ، مڈل اور میٹرک کی سطح پر تعلیم کے دوران میر مٹھا خان مری ، مولوی خدابخش تو نسوی ، مولانا خدا بخش کڑکی ، جناب دیو کی نندن ، مولوی اللہ دتہ صاحب ، کشمیری لال صاحب ، میر انعام الحق صاحب ، پنڈت دولت رام صاحب، جناب ہاشم خان غلزئی صاحب اور بعض دیگر اساتذہ ایسے مہربان انسان تھے جنہوں نے ہر لحاظ سے میری اور میرے دیگر طلبا دوستوں کی رہنمائی کی۔ انہی کی بدولت ہماری ادبی اور سیاسی رجحانات تشکیل پائے۔ میر مٹھا خان مری نے اقبال کی جانب سب سے پہلے متوجہ کیا اور مولوی اللہ دتہ صاحب نے اقبال کی جانب میرے شوق کو مزید ابھارا ۔ چنانچہ سب سے پہلے جن کتابوں نے مجھے بہت متاثر کیا ان میں علامہ اقبال کی کتابیں سر فہر ست ہیں۔ ۔ میں نے میٹرک تک اقبال کا تمام مجموعہ اردو اور فارسی اپنے ہی پیسوں سے کوئٹہ سے خرید لیں اور لاہور سے سنگوالیں۔ اس کے علاوہ انہی ایام میں کمال اتا ترک ، مہا تما گاندھی ، ابوالکلام آزاد ، غازی امان اللہ، لینن ، روسو، ہٹلر ابراہم لنکن کی سوانح عمریاں اور چند ایک کی تصانیف پڑھ لیں۔ اس کے علاوہ انگریزی اد بیات میں رابن سن کر وسو ، کنگ آرتھر ، گولڈن فیلس ، ڈان کوئک سوٹ ، گولیورز ٹر یولز ، جان منیان کی کتاب پلگر مز پروگریس پڑھ لئے۔ ان کتابوں نے میرے ادبی ذوق اور سیاسی شعور کو بنیادیں فراہم کیں۔
کالج کے زمانے میں جب میں اسلامیہ کالج پشاور میں تعلیم پار ہاتھاتو جناب ڈین صاحب قاضی نورالحق ، فضل الرحمن ، مولانا عبدالرحیم نیازی صاحب، ڈاکٹر احسان اللہ خان صاحب ، صاحب زادہ محمد ادریس صاحب ، جناب ہیڈو ہیرس صاحب اور جناب شیخ تیمور صاحب ایسے مہربان اور اچھے انسان اور استاد تھے جنہوں نے میری ہر طرح سے راہ ہنمائی کی ۔ ابتدا میں جناب ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی تصانیف سے بہت متاثر ہوا۔ اس سے پہلے جناب علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کی تصانیف میں نے سب پڑھ لی تھیں۔ شبلی نعمانی کی تصنیف الفاروق نے مجھے بہت متاثر کیا۔ علامہ امام غزالی کی احیا العلوم اور کیمیائے سعادت ، میں نے پڑھ لئے۔ پھر شیخ تیمور کی راہنمائی میں میں نے برٹرینڈرسل کی کتاب’’سائنس اور مذہب‘‘ پڑھ لی اور ان کی سلیس انگریزی اور دلچسپ پیرایہ تحریر نے مجھے ان کی بیشتر تصانیف پڑھنے کا شوق دیا۔ اس طرح فلسفہ کی جانب میرا رجحان ہوا۔ نطشے ، ہیگل ، کانٹ ، جان سٹوارٹ مل کے علاوہ ہیکسلے ، ہالڈین اور پروفیسر جوڈ کی کتابیں پڑھیں۔ ان کتابوں نے میری فکری دنیا میں ہنگامہ برپا کیا۔ اور میں ذہنی کرب وبے چینی میں مبتلا ہوا۔ مجھے زندگی دگرگوں نظر آنے لگی۔ اب میں علامہ اقبال کے اس شعر کے فلسفہ کو آہستہ آہستہ سمجھنے لگا۔
سکون محال ہے قدرت کے کار خانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اسلامیہ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعدمیں چاہتا تھاکہ علی گڑھ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاؤں ۔ علم کابے حد شوق پیدا ہو چکا تھا۔ مگر مالی مشکلات میرے اس شوق اور عزم کی راہ میں حائل ہوئے۔ بالآخر میں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی اور نائب تحصیلدار ہوا۔ میرے شعور اور احساس نے سرکاری ملازمت اور خصوصاًایسی ملازمت میں میرے لئے زندگی کومشکل کردیا۔ جہاں ہر طرف رشوت خوری کا بازار گرم تھا اورا س کی خاطر ہر نا جائز عمل کو روارکھا جاتاتھا ۔
ملازمت کے دوران میرا تبادلہ نصیر آباد ڈسٹرکٹ ہوا جہاں جاگیرداروں کا دورہ ددرہ تھا اور عملاً سرکاری عملہ ان جاگیرداروں کے ماتحت تھا۔ جاگیردار جو چاہتے ان سے کرواتے ۔ میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھالہٰذا میرے لئے ملازمت بارِگراں بن گئی۔ آخر کار اسی ڈسٹرکٹ میں میں نے نائب تحصیلداری کو خیر باد کہہ دیا۔
نصیر آباد میں کسانوں کی حالت زارمجھ سے نہیں دیکھی جاتی تھی۔ میں نے جو کچھ پڑھا تھااستحصال کے بارے اور جاگیر داروں کے مظالم کے بارے وہاں پہ چشم خود میں نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھا ۔ انہی دنوں مجھے ادب سے کچھ زیادہ لگاؤ ہوا اور میں نے میکسم گور کی کا مطالعہ کیا۔ گور کی کی کتابوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ۔ پھر میں نے چیخوف ۔ ٹالسٹائے ، صدر الدین عینی، کرشن چندر ،کئی ادبی ناول اور افسانے پڑھ لئے ۔ ادب نے میرے ذہن کو قابو کر لیا او رس طرح میرا ذہنی رجحان ادب کی جانب ہوگیا۔
میں نے فارسی ادبیات کا مزید مطالعہ کیا۔ مولانا رومی ، سعدی ، حافظ ، غالب ، اقبال اور بعد میں فیض اور ساحر نے مجھے شعری ذوق دیا۔ میں شاعر تو نہ بن سکا البتہ مجھے شاعری سے بے حد لگاؤ ہوا ۔ اس لگاؤ کی وجہ سے میں نے بلوچی زبان وادب اور شاعری کا مطالعہ کیا۔ میں نے بلوچی زبان و ادب اور شعری کو پہلے کبھی بھی درخورعتنا نہیں سمجھا تھا۔ مگر جب میں نے بلوچی کلاسیکی شاعری کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ بلوچی قدیم شاعری نہایت ہی بلند ہے ۔ میں نے اس شوق میں خودگو یوں کے پاس جاکر ان ادب پاروں کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ پھر گل خان نصیر کی شاعری دیکھی تو میرا سر فحر سے بلند ہونے لگا کہ میری اپنی زبان میں اتنی بہترین شاعری تخلیق ہورہی ہے اور گل خان جیسا بلند پایہ شاعر موجود ہے ۔ پھر آزاد جمالدینی کی شاعری پر وان چڑھنے لگی اور شاعری میں نام پیدا کیا۔ رفتہ رفتہ ملا فاضل ، جام درک ، مست توکلی ، رحم علی اور جوآں سال نے میرے اس احساسِ کمتری کو کہ بلوچی زبان اور ادب اور قابلِ قدر نہیں ، احساس برتری میں تبدیل کردیا۔
مست توکلی کے کلام نے تو میرے جذبہَ انسان دوستی کو اور بھی ابھار ا۔اور میں نے اپنے ملک کے دیگر گران قدرادب عالیہ سے شناسائی کی کوشش کی ۔سندھی ادب میں شاہ لطیف بھٹائی سچل سرمست ، پنجابی میں بُلے شاہ ، وارث شاہ، سلطان باہو ، پشتو میں رحمن بابا اور سرائیکی میں غلام فرید کے مقام اور کلام نے مجھے پہ ذہن نشین کرایا کہ ادب ار ادیب کا مقام انسانی سماج میں بہت بلند ہے اور ادب انسانوں کو یکجا کرنے اور ان کا دل جیتنے کے لئے جو جادو جگا سکتا ہے معاشرے میں اور کوئی ایسی قوت نہیں جو یہ عمل سرانجام دے سکے۔سچے اور راست باز اور حق پسند شاعر اور ادیب ہی انسانوں کے دلوں کو جوڑ سکتے ہیں، ظلم کے خلاف بھر پور احتجاج پیدا کرسکتے ہیں ۔
تو جناب پروفیسر عزیز بگٹی صاحب کتابوں ، شاعری اور ادب نے میرے ذہن کو اس طرح سے جھنجھوڑا ہے ۔
س: تصوف اور ادب کے درمیان تعلق کی کیا کیا صورتیں ادب کے مختلف ادوار میں سامنے آتی رہی ہیں؟
ج: یہ حقیقت ہے کہ ادب اپنے عہد کی سماجی ، سیاسی اور فکری حالات ونظریات کا آئینہ ہے ۔ ادب سماج کا عکاس ہے ۔ صوفی شعراء کے کلام سے ان کے ادوار کی سماجی حالات اور مسائل کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ کئی صوفیائے کرام نے ادب کو اپنے نظریات کی تبلیغ کا ذریعہ بنایا ….اس لحاظ سے وہ بڑے کمٹڈ شعراء تھے۔ شمس تبریزی ، مولانا جلال الدین رومی اور شاہ عبدالطیف بھٹائی ، بُلے شاہ ، غلام فرید ، بھگت کبیر ، بابا گرونا نک وغیرہ نے اپنے کلام اور اخلاق کے ذریعہ کروڑوں انسانوں کے دل جیت لیے ۔ اپنے نظریات سے متاثر کیا ۔ وہ خاص و عام میں مقبول ہوئے۔ ان صوفی شعراء نے انسانوں کو جینے کا قرینہ بتایا اور انہیں ایک مضبوط رشتے میں جوڑ دیا۔ انہوں نے انسانوں کو مذہب، رنگ ، نسل اور قومیت کی بنا پر فرق کرنے اور منافرت سے باز رکھا اور انہیں انسان ہونے کے ناطے سوچنے کی تلقین کی۔ صوفی شعراء نے عملی طورپر ظلم ، جبر ، استحصال ، تشدد اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کی راہنمائی کی۔شاہ عنایت کی تحریک اس کی بہترین مثال ہے ۔ صوفی شعراء عوام الناس میں ایسے مقبول ہوئے کہ ان کی تعلیمات کی روشنی میں عوام ہر ظلم وجبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔
بلوچی میں مست توکلی کی مثال دی جاسکتی ہے ۔ ایک ناخواندہ ، خانہ بدوش اور قبائلی معاشرے میں مست توکلی نے انسانی دلوں کو اس طرح سے جیت لیا کہ اس کے دور کے عوام نے اس کی وفات کے بعد اس کی زیارت گاہ قائم کردی۔
دراصل ادب اور بالخصوص صوفیا کا کلام بھائی چارہ ، انسان دوستی اور محبت کا پرچار ہے ۔
س : کیا سائنس اور مذہب کے درمیان بُعد ہے؟
ج: میرے خیال میں کوئی بُعد نہیں ۔ سائنسدان کا موضوع مذہب نہیں بلکہ اپنا شعبہَ علم ہے ۔ سائنس کا دائرہِ عمل مذہب سے جدا ہے ۔ سائنس نے کبھی بھی یہ نہیں بتایا کہ کونسا مذہب بہتر ہے یا بالا تر ہے ۔ وہ اسے بھی انسانی زندگی کا اہم جزو تصور کر کے اسے انسان کی ذاتی ضرورت سمجھتی ہے ۔ سائنسی ترقی انسانی زندگی کے تجربات اور اس کے معلوم کئے ہوئے حقائق کا نتیجہ ہے ۔ سائنس کو اگر انسان دوستی کے لئے استعمال کیا جائے تو وہ انسان کی زندگی کو پرامن ، خوشحال بنا دیتی ہے اور سماجی ترقی کا باعث بنتی ہے ۔اگر اسے ہوسِ ملک گیری ، ناجائز دولت بٹورنے کے لئے انسانوں کے استحصال کے لئے استعمال کیا جائے تو تباہ کن ہے ۔
جبکہ مولانا روم نے فرمایاہے۔
علم را بردل زنی یارے بود
علم را برتن زنی مارے بود
س: کیا صوفی شاعر اور عام شاعر میں بھی حدِ فاضل قائم کی جاسکتی ہے ؟
ج: صوفی شاعر کمٹڈ ہوتا ہے ۔ عام شاعر لازمی نہیں کہ کمٹڈ ہو۔
س: کیا ادب آفاقی ہونا چاہیے یا اس میں ارضیت کی بھی گنجائش ہوسکتی ہے؟
ج: ہر بڑے شاعر کی ابتدائی شاعری ارضیت ہی سے شروع ہوتی ہے ۔ جوں جوں اس کی فکر میں گہرائی ، گیرائی اور وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کا مطمع نظر اونچا ہوتا جاتا ہے ۔ بالآ خر اس کی شاعری آفاقی ہوجاتی ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *