Home » قصہ » بلی اور بوڑھا  ۔۔۔ منیر احمد بادینی / شرف شادؔ

بلی اور بوڑھا  ۔۔۔ منیر احمد بادینی / شرف شادؔ

کچھ مُدت پہلے ہمارے نئے کرائے کے مکان میں ایک بلی نے بسیرا کرلیا۔ وہ یوں ہوا کہ ہم جب بھی شام کے وقت کھانا کھانے بیٹھتے تو برآمدہ کے اوپر کمرے کے روشندان سے بلی کی میاؤں میاؤں کی آواز آتی جو کھانے کی خوشبو سے لپٹا ہُوئی کسی انجانے گھر سے وہاں آتی۔ برآمدے کے اوپر چلتے ہوئے ہمارے کمرے کی جالی دار روشندان میں میاؤں میاؤں کرتی ہُوئی اپنا سر رکھتی۔ اور اُس کی آنکھیں جھلملاتے ہُوئے چراغ لگتیں اور اپنی مونچھیں ہلاتی ہُوئی اپنی آواز کی گونج بڑھاکر میاؤں میاؤں کرتی ۔جب وہ ہماری طرف سے کوئی ہڈّی اور روٹی کا ٹُکڑا ملنے کی امید سے دست بردار ہوجاتی تو میاؤں میاؤں کرتی ہُوئی اپنے انجان گھر کی راہ لیتا ۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے وہاں بھی اُس بے چارے کی قسمت میں مایوسی ہی لکھی ہو۔
جب بھی میں اُس کے لئے کوئی روٹی کا ٹکڑا پھینکنے کے لئے ہاتھ بڑھاتا تو میری بیوی بولتی ’’اس کو روٹی مت دو، روزآکر ہمارا جینا دوبھر کر دے گی‘‘۔ میں اُسے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ یہ بلی بھوکی ہے۔ ہم جب کھاناکھاتے ہیں، وہ اس کی خوشبو سے کھنچی ہوئی اہمارے روشندان میں آتی ہے۔ بھوکی نگاہوں سے ہمیں دیکھتی ہے اور پھر سر جُھکا کر مایوسی سے واپس لوٹ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے اگر میں روٹی کا ایک ٹکڑا شوربے میں ڈبو کر اُس کی طرف پھینکتا ہوں۔
لیکن وہ میری بات ماننے سے صاف انکار کرتی۔ پتہ نہیں اُسے بلی کی شکل سے ہی نفرت کیوں تھی۔ اُس نے مجھے بلی کو روٹی دینے سے منع کیا۔
لیکن جب بلی کھانے کے وقت پے در پے روشن دان میں کھڑی ہو کر میاؤں میاؤں کرنے لگی تو میں نے اپنی بیوی سے کہاکہ میں اس حیوان کی مسلسل مایوسی برداشت نہیں کرسکتا۔ میں اس کی طرف روٹی کا ایک ٹکڑا پھینکوں گا تاکہ یہ حیوان اپنا پیٹ بھر سکے، اگر وہ ہرروز آئے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ ہمارے گھر میں چوہوں کی بھرمار ہے۔ اگر بلی پالتو بن گئی تو چوہوں کے لئے قیامت آئے گی۔ لیکن جب میں نے روٹی کا ٹکڑا علیٰحدہ کیا کہ اُس کو بلی کی طرف اُچھالوں تو میری بیوی میرا ہاتھ پکڑ کر بولی۔’’ غرق کرو اسے، مجھے اس کی میاؤں میاؤں زہر لگتی ہیں اور تم اسے کھانا دے رہے ہو۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔خدا اس کو غارت کرے، یہ ہر رات آکر ہمارا کھانا دوبھر کرتی ہے۔ روشندان میں بیٹھ کر تکتی ہے اور تمھارے دل میں ہمدردی کے جذبات اُبل پڑتے ہیں۔ اپنا کھانا پینا بھول کر اسی بلی کی میاؤں میاؤں کے بارے میں سوچتے ہو۔ میں یہ قطعاََ نہیں ہونے دوں گی۔‘‘اس کے بعد وہ بلی کی جانب ہوا میں ہاتھ چلانے لگی کہ دُور ہو مُردار!۔
لیکن بلی ابھی تک مجبور اور بے چارگی کے عالم میں روشندان میں بیٹھی میاؤں میاؤں کرکے ہم میاں بیوی کے جھگڑے کو دیکھ اور سُن رہی تھی۔ جب اُس نے مجھے اُٹھتے ہُوئے دیکھا تو خاموش ہوگئی۔ شاید اُس کو یہ امید ہوچلی ہو کہ میں اُسے روٹی دینے والا ہوں۔۔۔۔۔۔
لیکن جب بیوی نے میرا ہاتھ پھر پکڑاتو وہ پھر مایوس ہوا کہ ابھی تک اسے روٹی دینے اور نہ دینے کے معاملے پر جھگڑاجاری ہے۔اس ادراک کے بعداُس کی میاؤں میاؤں کا سلسلہ ایک بارپھر شروع ہوگیا اور میں نے اس کی جانب دیکھنے کے بعد اپنی بیوی سے کہا:
’’تمھیں پتہ نہیں ، بھوک کیا چیز ہوتی ہے۔ بھوک کے بارے میں اس بلی کے دل سے پوچھو‘‘
’’ ضدّ کرتے ہو تو جاؤ دے دو، میں تمھیں نہیں روکتی‘‘ بیوی میری باتوں سے عاجزآگئی اور اُس نے مجھے اجازت دی کہ میں بلی کی جانب روٹی کا ایک ٹکڑا پھینک دوں۔
جب میں نے روٹی کے ٹکڑوں کو برآمدے کی جانب پھینک دیا تو بلی نے اُچھل کر اُن کو پکڑ لیا۔ اپنی راہ لینے سے پہلے وہ ایک بار پھر روشندان میں آئی اور میاؤں میاؤں کرکے چلی گئی۔ بلی کی اس شرارت پر میں نے بیوی سے کہا :
’’دیکھا، تم نے اس حیوان پر اتنا بڑااحسان کیا اب وہ تمھارا شُکریہ ادا کررہی ہے۔ ‘‘
اس کے بعد جب بھی وہ بلی ہمارے گھر آتا تو پیٹ بھرکے کھانا کھاتی۔بلکہ اب ہم اس کا انتظار بھی کرتے تھے۔کبھی کبھی اگر اُسے آنے میں دیر لگتی تو ہم اُس کے لئے کھانا بچاکر رکھ دیتے۔ جب برآمدے میں اُس کی آواز گونجتی تو ہم روٹی کا ٹکڑا برآمدے میں رکھتے۔
ایک رات ہم کھانا کھا چُکے تو بلی نہیں آئی ، ہمیں یہ پتہ تھا کہ کبھی کبھی وہ دیر سے آتی ہے۔ ہم اُس کا انتظار کرنے لگے ، بار بار ہماری آنکھیں روشندان کی جانب اُٹھ رہی تھیں کہ اب نہیں تو تب اُس کی زردسی آنکھیں ہمیں دکھائی دیں گی مگر ابھی تک وہ نہیں آئی تھی۔
پھر ہمارے مکان کے مرکزی دروازے پر کسی نے دستک دی۔جب میں نے دروازہ کھولا توسڑک کے کنارے لگے بجلی کے کھمبے کی روشنی میں دیکھا ۔ایک بھکاری تھا۔جس نے مجھے دیکھتے ہی دہائی دینا شروع کی۔
’’جناب ! میں دو دن کا بھوکا ہوں ، اگر کوئی روٹی وغیرہ ہے تومہربانی ہوگی‘‘۔
میں نے غور کیا تو معلوم ہواوہ ایک بہت بوڑھا بھکاری تھا ، جو اپنی لاٹھی ٹیکتا ہوا ہمارے دروازے تک پہنچا تھا۔اب زور زور سے سانس لینے کی وجہ سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ کافی دُور سے آرہا ہے۔
اُس کی سفید داڑھی اور کمزوری کو دیکھ کر مجھے اس پر رحم آگیا ۔ میں واپس لوٹا گھر میں جتنی روٹیاں تھیں وہ سب اُس بوڑھے کے ہاتھوں میں رکھ آیا جن کو اُس نے خوش ہوکر بغل میں داب لیا اور خوشی خوشی سے لاٹھی ٹیکتا ہوا روانہ ہوگیا۔
میں واپس لوٹ کر ابھی کمرے میں صحیح طرح بیٹھ بھی نہیں پایاتھا کہ بلی کی آواز آگئی مگر آج میں ساری روٹیاں بوڑھے آدمی کو دے آیا تھا اور ایک بھوکے انسان کو روٹیاں دیتے وقت مجھے یہ یاد بھی نہ رہا کہ ایک بھوکا حیوان بھی آئے گا۔
اب میں حیران پریشان بیٹھا تھا کہ کیا کروں ؟ کیونکہ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں بچا تھا اس لئے میں اور میری بیوی دل شکستہ تھے اور بلی کے سامنے خود کو شرمندہ محسوس کررہے تھے کہ آج اُسے روٹی نہ مل سکی۔اس لئے ہم ڈائیننگ روم سے دوسرے کمرے میں آئے اور بلی کو وہیں میاؤں میاؤں کرنے دیا۔ بہت دیر تک اُس کی میاؤں میاؤں کی آواز گونجتی رہی۔ اور جب اُس کی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی تو میرے دل میں پشیمانی اور ہمدردی کے جذبات بیک وقت اُٹھتے تھے۔
بدقسمتی سے بلی میری زبان نہیں سمجھ سکتی تھی ورنہ میں اُسے سمجھاتاکہ آج تمھارے لئے روٹی نہیں بچ سکی کل میں تمھارے لئے ضرور روٹی رکھوں گا۔ آج تمھارا حصّہ ایک بیمار اور بوڑھا انسان لے گیا وہ بھی تمھاری طرح بھوکا تھا۔
لیکن بلی بہت دیر تک میاؤں میاؤں کرتی ہوئی روشندان میں بیٹھی رہی۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ برآمدے میں اُس کے قدموں کے چاپ کی آواز آئی ۔۔۔ ۔۔۔ ’تو وہ مایوس ہو کر جارہی ہے‘ میں نے سوچا۔۔۔۔۔۔:
دوسری رات ہم نے بلی کا بہت انتظار کیامگر وہ نہیں آئی ۔ تیسری چوتھی رات بھی ہم منتظر کے منتظر ہی رہے ۔ بلی نہیں آئی۔۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد بلی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہُوسکا کہ وہ زندہ رہی یا مرگئی۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *