Home » پوھوزانت » نیشنل ایکشن پلان عمل کے ترازو میں  ۔۔۔ قلا خان خروٹی

نیشنل ایکشن پلان عمل کے ترازو میں  ۔۔۔ قلا خان خروٹی

نیشنل ایکشن پلان کا پس منظر تو سب کو معلوم ہے جس پر بات کرنے کا مطلب چبائے ہوئے نوالے کو دوبارہ چبانا ہے ۔ یہ قانون اب پاکستان کے دستور میں ایک مستقل جگہ بنا چکا ہے۔ یہ صرف قانون ہی نہیں بلکہ ان معصوم بچوں کی یا د بھی دلاتا ہے جو انسان نما درندوں کا شکار بن گئے ۔ اس کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے جو لائحہ عمل سامنے آیا وہ سول اور ملٹری اداروں کی مشترک ذمہ داری بنائی گئی۔ کیونکہ بہت عرصے سے پائی جانے والی بد اعتمادی سے دہشت گردوں کو بہت تقویت پہنچی تھی اور انھیں صحیح معنوں میں انجام تک پہنچانا ناممکن ہوگیا تھا ، نتیجتاً دہشت گرد بظاہر محفوظ نظر آنے والے علاقوں کو بھی نشانہ بناتے رہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں شامل کیے گئے قریباً بیس بہت اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی اور یہ ارادہ کیا گیا کہ ان شعبوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں گے تو مستقبل میں آرمی پبلک سکول پشاور جیسے واقعات سے بچا جاسکتا ہے ۔
مگر جیسے عام طور پر دیکھا گیا ہے قوانین بنانے کی حد تک تو بہت ہی گرمجوشی دکھائی جاتی ہے مگر اس پر عمل کرنے کا وقت بہت کم آتا ہے۔آپ اس سے اندازہ لگا لیں ایک ہی سانس میں 15ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئی اور عجلت اتنی تھی کہ باقاعدہ نوٹیفائے بھی نہ کرسکے چہ جائیکہ TORsطے ہوتیں ۔کچھ اجلاس بھی ہوئے مگر بعد میں کم ہوتے گئے اور آخر کار یوں لگا جیسے کوئی کمیٹی تھی ہی نہیں ۔نیشنل ایکشن پلان کے نکات لوگوں کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے مزید سوالات کو جنم دیا۔ حال ہی میں سول ہسپتال کوئٹہ کے سانحے کے بعد عام لوگوں نے مذکورہ بالا قانون کو تنقید کا نشانہ بنایااور سول اور ملٹری اداروں کی ذمہ داریوں پر کڑے سوالات اُٹھائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ نیپ کے چیدہ چیدہ نکات اور اس پر ہونے والی پیش رفت پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تاکہ قارئین کویہ فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہو کہ اتنے بڑے حادثے کی ذمہ داری کس پہ ڈالی جائے:
1۔ موت کی سزا پانے والے مجرم جو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہوں، کو پھانسی کی سزا پر عمل درآمدہو۔اس حوالے سے جو پیش رفت ہوئی ہے اس پر چہ میگوئیاں بلاشبہ ایک فطری بات ہے ۔ تین لاکھ افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں کہا جاتا ہے کہ ابھی تک صرف 140افراد ایسے تھے جن کا تعلق دہشت گردوں سے ثابت ہوا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ conviction rate صرف0.05فیصد ہے ۔ اس کے علاوہ 100کے قریب کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو گرفتار کر نا اور پھر ان کے تفتیش کا کا م کسی طرح بھی حکومتی مشینری کے بس کی بات نہیں ۔
2۔ فوجی عدالتوں کا قیام۔ اب تک دس عدالتیں قائم کی گئی ہیں اور اس کے علاوہ گیارہ مزید پائپ لائن میں ہیں ۔
3۔ ذاتی ملیشیا رکھنے کی ممانعت۔ اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔
4۔ NACTAکی نئے سرے سے فعالیت۔ فعالیت تو درکنار اس ادارے کی اپنی فنڈ بھی کم کر دی گئی ۔ ایک ارب وصول کرنے والے ادارے کو اب صرف 92ملین ملتی ہیں ۔ تقریباً 63ملین صرف ملازمین کی تنخواہوں میں صرف ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سٹاف اور انٹیلی جنس شیرنگ کے فقدان کا بھی سامنا ہے ۔
5۔ اشتعال انگیز تقاریر، تحاریر اور ویڈیوز وغیر ہ پر پابندی۔ اس معاملے میں کوئی بھی پیش رفت سامنے نہیں آئی جو قابل ذکر ہو، ماسوائے ایک �آدھ گرفتاری کے جو پنجاب میں ہوئیں ہیں۔ نفرت انگیز تقریر کرنے پر ضلع قصور کے ایک قاری کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی اور اس کے علاوہ بھی کچھ لوگوں کو پنجاب میں پوچھ گچھ کا سامنا ہے۔ باقی صوبوں میں پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلوچستان میں بیس ایسے افرادگرفتار ہوئے جو اشتعال انگیز ویڈیوز کا کاروبار کررہے تھے ان کو دہشت گردی کی عدالت نے پروبیشن پہ رہا کردیا۔
6۔ دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے ہاتھوں کو روکنا ۔ اس حوالے سے بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ۔
7۔ کالعد م تنظیموں کو نئے یا پرانے نام سے کام کرنے کی سختی سے ممانعت۔ ابھی تک اس پہ کوئی عمل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ مسئلے کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ صرف پنجاب میں 95انتہا پسند جماعتیں کام کر رہی ہیں ۔
8۔ دہشت گردوں کے ذرائع ابلاغ کو تباہ کرنا۔ اس پر عمل بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں
9۔ سوشل میڈیا کا دہشت گردوں کے ہاتھوں غلط استعمال کی روک تھام۔ کوئی خاص کام نہیں ہوا۔ یہ اس لیے کہ پی ٹی اے دائرہ اختیار میں کسی کی آئی ڈی بند کرنے کا اختیار نہیں کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیز جیسے فیس بک وغیرہ کسی کو بھی اپنی سیکریسی تک رسائی کی سہولت نہیں دے سکتا۔ حکومت صرف یہ کرسکتی ہے کہ سارے پلیٹ فار م کو بند کردے مگر ایسا ممکن نہیں ۔ پاکستان الیکٹرانک کرائم بل کا پاس ہونا بھی اسی عمل کا شاخسانہ ہوسکتا ہے جو کہ بہت سخت تنقید کانشانہ بنا ہوا ہے۔ عام لوگوں کو war on terror کے نام پر آزادی اظہار کی نعمت سے محرو م رکھنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ جنگ مزید انسانی حقوق کا مسئلہ بڑھا رہا ہے۔
10۔ آئی ڈی پیز کی بحالی اور فاٹا میں اصلاحات۔ کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔
11۔ دہشت گردوں کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح پنجاب میں خصوصی طور پر جگہ نہیں دی جائیگی۔ اس نکتے پر بھی کوئی کام نہیں ہوا۔
12۔ کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔
13۔ بلوچستان میں سیاسی مصالحت۔ کچھ بھی نہیں ہوا، حتیٰ کہ کچھ نے یورپ میں بیٹھ کر green signal دیا مگر اسٹیبلشمنٹ کی گاڑی سڑک کے بیچ کھڑے رہنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
14۔ فرقہ واریت کو جڑ سے اُکھاڑنا۔ اس سے حوالے سے بھی کوئی خاص کام نہیں ہوا۔
15۔ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن ۔ ماسوائے اسکے کہ ان کی تعداد کو جیسے تیسے تین ملین بتایا گیا اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ابھی تک صرف 15لاکھ افغانوں کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔نادرا کے ذریعے مقامی افراد کو خوب لوٹا گیا جس میں مہاجر اور مواطن کا لحاظ نہ رکھا گیا ۔
16۔ کریمینل جسٹس سسٹم میں اصلاحات۔۔۔۔ اس حوالے بھی کوئی قابل ذکر قدم نہیں اُٹھایا گیا۔
17۔ Counter Terrorism Force Deployment۔ اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔
18۔ مدرسہ ریفارمز۔ اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کا دباؤ ابھی تک قائم ہے۔
19۔ ملک میں اقلیتوں کا تحفظ۔ کوئی بھی پیشرفت نہیں ہوئی ۔
20۔ ذرائع ابلاغ اور دیگر ذرائع مواصلات پر دہشت گرد وں کی تبلیغ و ترویج کی ممانعت۔ اس سے حوالے سے بھی کچھ نہیں ہوا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *