Home » پوھوزانت » لینن کا نظریہِ جمالیات ۔۔۔ جاوید اختر

لینن کا نظریہِ جمالیات ۔۔۔ جاوید اختر

چوتھی صدی قبل مسیح میں ایران میںآتش پرست اور ساسانی عقائد کے مطابق تصویریں بنائی گئیں ، جو قدیم ایرانی قوم کے ذوقِ جمال کی غمازی کرتی ہیں۔۔تاہٹی کے ایک قبیلے کے افراد کی جنگ کے دیوتا کی چٹائی سے بنی ہوئی وہ شبیہہ،جو کسی انسانی صورت سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی ہے، عجائباتِ روزگار میں سے ایک ہے۔۔اہلِ نائجیریا کا بنایا ہوا پیتل کا مجسمہ ،جو چارسو برس قدیم تسلیم کیا جاتا ہے، بھی عجوبہِ روزگار ہے۔ریڈ انڈین قبیلے کے سردار کے گھر کے کھمبوں پر کندہ نقش و نگار،آسٹریلیا اور میوری قبیلے کے افراد کی لکڑی پر مرصع نقاشی ،افریقہ میں انسانی چہرے،مجسمے،بھوت پریت ،غیر انسانی صورتیں اورنقاب پوش چہرے کی تصاویر اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔یونانِ قدیم میں انسان نے فنِ ظروف سازی پر نقش ونگار اور تصویرکشی کا سلسلہ شروع کیا۔پانچویں صدی قبل مسیح میں اہلِ یونان نے پارتھینیاں اور ایکروپولیس عبادت گاہوں کو اعلیٰ فنِ تعمیر سے آراستہ وپیراستہ کیا۔پراکسی ٹیلیس نے محبت کے دیوی دیوتا کی مجسمہ سازی کی،جس میں انسانی بدن کے اعضاء اور زاویوں کو انتہائی خوب صورتی سے پیش کیا گیا۔
قدیم رومۃ الکبریٰ میں فنِ مجسمہ سازی میں مزید ترقی ہوئی۔قدیم رومیوں نے رومی شہنشاہوں کے خوب صورت مجسمے تعمیر کیے اور اس کے ساتھ ساتھ فنِ تعمیر میں بھی بے حد ترقی کی۔انہوں نے خوب صورت عمارتیں، حمام اورپختہ شاہراہیں تعمیر کیں۔انہوں نے اسی برس قبل مسیح میں ایک تفریح گاہ کو لوسیم کی عظیم الشان عمارت میں تبدیل کردیا۔علاوہ ازیں انہوں نے اپنے مفتوحہ و مقبوضہ علاقوں اور ملکوں میں اپنی فتح کو ظاہر کرنے کے لیے سہہ محرابی بابِ فتح بھی تعمیر کیا۔
سماجی تشکیل میں پیداوری قوتوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کے جمالیاتی شعور میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔تاریخ کے اوائلی ادوارمیں عورت نے زراعت کی ابتدا کی تھی ا ور سماج میں زرعی انقلاب برپا ہوگیا۔مادرسری کے عہد میں چوں کہ عورت زرخیزی اور زرعی پیداوار کی علامت بن گئی۔ اس لیے مادرسری کے سماج میں عورت کی حیثیت کے ساتھ ساتھ الوہی اور مافوق الانسانی صفات اور قوتوں کو بھی منسوب کردیا گیا۔یہیں سے انسان نے عورت کو دیوی کا درجہ دے دیا۔لہذا مختلف شعبہ ہائے حیات کے لیے علیحدہ علیحدہ دیویاں وجود میں آگئیں۔آہستہ آہستہ انسان نے حسن و جمال کی دیوی کاتصور بھی تراش لیااور اسے اپنے فنِ مجسمہ سازی سے حسین وجمیل عورت کی صورت میں مجسم کیااور اس کی خوب صورت مورتیاں بنائیں اور اسے مختلف تصویروں میں اس کے حسن وجمال کے خدوخال اور نقوش و نگار کوپیش کیا۔
جب ہم قدیم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں توہمیں دنیا بھر کی تمام قدیم اقوام کے علم الاساطیر میں حسن و جمال کی دیویاں مختلف ناموں سے ملتی ہیں۔جب ہم ان کے تہذیبی آثارِ قدیمہ کا جائزہ لیتے ہیں تو حسن کی دیوی کے خوب صورت اور دل کش مجسمے ،مورتیاں اور تصاویر ہماری توجہ کو اپنی طرف مبذول کرتے ہیں۔لیکن جو حسن و جمال اور عشق و محبت کی صفات انہوں نے ان سے منسوب کی ہیں ، وہ ان سب میں تقریباً تقریباً مشترک ہیں۔عکادیوں اور اشوریوں کی حسن و جمال اور عشق وومحبت کی دیوی عشتار،زہرہ، سومیریوں کی دیوی انانا،مصریوں کی دیویازیس، ایرانیوں کی دیوی اناہیتا(ناہید)،فینیقیوں کی دیوی اشیرات، فلسطینیوں کی دیوی عشتردت، ہندوستان کی دیوی لکشمی، یونانیوں کی دیوی افرودیتی، عربوں کی دیوی زہرہ قدیم عہد کے انسان کی حسن وجمال اور عشق و محبت کی دیویاں ہیں، جن کے مجسمے، مورتیاں اور تصاویر حسِ نسوانی کے اعلیٰ نمونے ہیں، جو قدیم اقوام کے معیارِ حسن اور ذوقِ جمال کو ظاہر کرتے ہیں۔
نظریاتِ جمالیات
انسان اور حسن وقبح کے مظاہرِ کائنات کے مابین کارفرما جدلیاتی تعامل کے نتیجے میں جمالیات (19) کی سائنس وجود پذیر ہوئی ۔جمالیات حسن و قبح اور فنونِ لطیفہ کی سائنس ہے،جو انسان اور خارجی دنیا کے مابین لطیف رشتے کا تعین کرتی ہے ۔یہ حسن و قبح، فنونِ لطیفہ اور مادی ماحول ،ادبی ہیئت اور موادکے باہمی تعلقات اور جمالیاتی اقدارو مسائل اور معیارات،اذواق و امیال کا سماجی مطالعہ کرتی ہے۔یہ انسان کے جمالیاتی شعور وادراک کے مادی رشتوں کی تشریح و توجیہہ بھی کرتی ہے،جس کا لطیف اظہاراور ازسرِ نو پیداوار فنونِ لطیفہ کی مختلف اصناف اور صورتوں میں ہوتے ہیں۔
جمالیات کے مطالعے میں سماجی تشکیل کے جملہ طبقاتی،سماجی،تہذیبی ، ثقافتی ، نفسیاتی، نظریاتی، سیاسی اور حیاتیاتی عوامل و عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔کیوں کہ جس طرح فطری سائنسیں،( سماجی سائنس، سیاسی سائنس،بشریات ،لسانیات ،فلسفہ اوراخلاقیات) سماجی شعور کی مختلف شکلیں ہیں۔ بالکل اسی طرح جمالیات بھی سماجی شعور کی ایک شکل ہے۔ان تمام علوم میں اختلافات کے باوجود باہم دگر ایک رشتہ قائم ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر اثرانداز بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے کائنات اور سماج کے کسی موضوع کا مطالعہ دوسرے موضوعات سے علیحدہ اور خودمختار طور پر نہیں کیا جاسکتا ہے۔بلکہ ان کے باہمی تعلقات کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
جمالیات کے دو بڑے شعبے ہیں،جن میں ایک مظاہر وظواہرِ کائنات میں حسن و قبح کی حقیقت و ماہیت،اقدااوراذواق و امیال کے مطالعے پر مبنی ہے،جسے فلسفہِ حسن و جمال کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔یہ حسنِ کائنات اور حسنِ انسان کے جمالیاتی مطالعے سے متعلق ہے۔جب کہ جمالیات کا دوسرا بڑا شعبہ حسنِ فن یعنی حسن و جمال کے لطیف فن کارانہ اظہار،اس کی ازسرنو پیداوار ، اس کے طریق کار ،صورت،مواد اور اصناف کے مطالعے پر مبنی ہے،جسے فلسفہِ فن کہا جاتا ہے۔
تاریخِ جمالیات میں حسن وجمال کی حقیقت و ماہیت ،معیار،ذوق،رحجان اور جمالیاتی اقدارکے بارے میں مختلف،متنوع اور متضاد نظریات موجود ہیں،جو اس قدر پیچیدہ،ادق اور عسیر الفہم فلسفیانہ مباحث اور منطقی موشگافیوں سے عبارت ہیں کہ ان کو پڑھ کر حسن وجمال کی لطافت ونفاست کا تصور بھی ذہن سے مفقود ہوجاتا ہے۔علاوہ ازیں ان میں مفکرینِ جمالیات کے درمیان اس قدر اختلاف پائے جاتے ہیں کہ ان میں ہم آہنگی تلاش کرنا ناممکنات میں سے ہے ۔ انہوں نے ہر دور میں ماہیتِ حسن اور دیگر جمالیاتی مسائل پر غور و خوض کیا ہے۔ان مسائل پر قدیم زمانے میں فینیقیوں، بابلیوں،کلدانیوں، آشوریوں، ہندوستانیوں اوریونانیوں نے بھی اپنی توجہ مرکوز کی۔ ان قوموں نے حسن و جمال کی حقیقت وماہیت،معیار،ذوق،رحجان اور اقدار کو متعین توکیاہے۔لیکن تاریخ کے ابتدائی ادوار میں فلاسفہ انسان،سماج اور کائنات کے مادی اصولوں کا ادراک نہ کرسکے ،جو ان کی تشریح وتوجیہہ کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔اس لیے ابتدائی فلاسفہ نے انسان،سماج اور کائنات کی تشریح وتعبیر عینیت پسندی سے کی اور ان سے متعلق تمام اقدار کو مابعدالطبیعات سے مربوط کردیا۔چنانچہ حسن وجمال کی جمالیاتی اقدار کو بھی مابعدالطبیعات کے فکری نظام سے مربوط کردیا گیا۔
تاریخ کے ابتدائی ادوار سے لے کر آج تک حسن وجمال کے لاتعداد نظریات وجود میں آئے،جن کا ماحاصل مندرجہ ذیل نظریاتِ جمالیا ت ہیں۔ یہودیوں کے مطابق خدا کمالِ حسن سے جلوہ گر ہوا اورحسنِ کائنات کے ہر ذرے میں جلوہ فگن ہے۔یونان میں فیثاغورث نے حسن کو عدد سے تعبیر کیااور سقراط نے حسن کی ماہیت اور اقدارومعیار کے بارے میں بحث و تمحیص کا آغاذکیا۔اس نے حسن کو خیر اور افادیت کا حامل قراردیا۔یعنی اس کے نزدیک وہ شئے حسین و جمیل ہے،جو خیر اور افادیت کی حامل ہو۔افلاطون نے کائنات اور سماجی تشکیل کی تشریح و توجیہہ اپنے مثالیت پسند نقطہِ نظر سے کی۔افلاطون نے حسن و جمال کی اقدار کو بھی اسی نقطہِ نظر سے متعین کیااور حسن وکمال کا مابعدالطبیعاتی نظریہ پیش کیا۔اس نے اپنے مکالمات”Symposium” ،”Phaedrus” ،”Philebus” ،”Republic”اور”Ion”میں حسن کے مابعدالطبیعاتی نظریہ سے بحث کی ہے۔
حسن وجمال کے مابعدالطبیعاتی نظریے کی رو سے حسنِ مطلق قائم بالذات ہے اور تمام مظاہرِ کائنات حسنِ مطلق کا پرتو اور عکس ہیں۔حسنِ مطلق ازلی وابدی ہے۔اس میں کوئی تغیروتبدل نہیں ہوتا ہے۔وہ ماورائے ادراک واحساس ہے ۔انسان حسنِ مطلق کا ادراک نہ حواسِ ِ خمسہ کے ذریعے کرسکتا ہے اور نہ اس کی عقل اس کا احاطہ کرسکتی ہے۔کیوں کہ انسانی حواسِ خمسہ کی اطلاعات ظنی اورغیریقینی ہیں اور عقلِ انسانی محدودِ محض ہے۔ حسنِ مطلق کا ادراک صرف انسان اپنے وجدان سے کرسکتا ہے۔(20)ارسطو نے حسن کو” خیر الامور اوسطہا “کا نام دیا۔ نواشراقیت کے مبلغ اور شارح فلاطینوس نے افلاطون کے نظریے کو مذید ترقی دی ، جس کے گہرے اور دوررس اثرات مشرق و مغرب تک فلاسفہ اور شعراء پر مرتب ہوئے۔(21)
یہی تصوریت پسندجمالیاتی نظریہ کسی نہ کسی صورت میں جاگیرداری قرونِ وسطیٰ تک جمالیات کے شعبے پر چھایا رہا۔سینٹ آگسٹائین،بام گارٹن اورونکل مان نے ہر حسین وجمیل شئے کو حسنِ کل کی تجلی قراردیا۔ اسی طرح شیلنگ اور کئی دیگر فلسفیوں نے بھی حسن و جمال کی تشریح و تعبیر عینیت پسندی سے کی۔ڈیوڈ ہیوم اور عمانوئل کانٹ نے بھی ایسا ہی عینیت پسندجمالیاتی نظریہ پیش کیا،جس کے مطابق حسن وجمال سے جو تسکین ہمیں حاصل ہوتی ہے،وہ حسیاتی نہیں بلکہ عقلیاتی ہے اور آزادیِ ارادہ ہماری تحسینِ جمال کے تعین میں مصروفِ عمل ہوتی ہے۔
عمانویل کانٹ کے مطابق جمالیاتی ادراک صرف اشیا کی ہئیت تک محدود ہوتا ہے۔اس کے نزدیک اشیاء کا مواد جمالیاتی احساس وادراک اجاگر کرنے کے سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا ہے۔(22)عمانوئل کانٹ مزید تحریر کرتا ہے:
“اس بات سے ہرایک اتفاق کرے گا کہ فیصلہِ حسن زیادہ ترجانب دارانہ ہوتا ہے،اگر کوئی اس میں ذرا سی بھی دلچسپی لیتاہواور وہ کسی طرح بھی خالص فیصلہِ ذوق نہیں ہے۔چناں چہ اسے اس چیز کے وجود میں دلچسپی نہیں لینی چاہیے اوراس مفہوم میں اسے اس جوہر سے مکمل طور پر بے نیاز ہونا چاہیے۔”(23)
“Everyone must agree that any judgement of beauty, if it is even slightly interested, is very partisan and is by no means a pure judgement of taste. Therefore one must not be interested in the existence of the thing and be completely indifferent in this sense.”(7)
عمانوئل کانٹ کے اسی عقلیاتی نظریہِ جمالیات کا تتبع ایس ٹی کولرج نے بھی کیا ۔ فریڈرک ہیگل نے جمالیات کا تجرباتی نظریہ پیش کیا۔اس کے مطابق حسن کسی بھی صورت میں ہو وہ انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔وہ کہتا ہے کہ اشیا کا مواد ان کا وہ روحانی جوہر ہے،جس کا ادہورا پن اور نقص ان کی ہیئت سے جھلکتے ہیں۔(24)
مشہور اطالوی دانشور کروچے نے جمالیات کا اظہاریت پسند نظریہ پیش کیا،جس کی رو سے اس نے حسن کو انسان کے جذبات کے اظہار کانام دیاہے۔(25)سگمنڈفرائڈ اور اڈلر نے بھی اسی نظریے کا پرچار کیا۔سگمنڈ فرائڈنے حسن کو جنسی جبلت کا اظہار قرار دیا۔اڈلر نے بھی حسن کو ایغوئی اظہار سے تعبیر کیا۔آرتھرشوپن ہائر اور فریڈرک نیٹشے نے جمالیات کا جذباتی نظریہ پیش کیا،جس کی رو سے انہوں نے حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے جذباتی لگاؤ اور ذاتی خواہشات کوترک کرنے کو لازمی قراردیا۔اس سلسلے میں شوپن ہائر کہتا ہے:
“جمالیاتی ادراک خالصتاً ذہنی ہوتا ہے اور اس میں مکمل طور پر خواہشات کا ففقدان ہوتا ہے۔”(26)
جان رسکن اور لیو ٹالسٹائی نے جمالیات کا اخلاقی نظریہ پیش کیا۔ ان کے مطابق حسن خواہ موسیقی کے سروں کے تناسب و توازن میں ہو یا کسی انسان کے سڈول جسم کے تناسبِ اعضا میں ہو،اسے بہر صورت انسان کو نیکی وراستی کی طرف مائل کرناچاہیے۔(27)
سرمایہ داری کے فروغ کے ساتھ ساتھ جب مادیت پسندی کا فلسفہ وجود میں آیا تو عینیت پسندی کا فلسفہ متروک ہونے لگا۔اب حسن وجمال کی ماہیت اور اقدار کو بھی اسی مادیت پسندی کے نقطہِ نظر سے متعین کیا گیا۔اٹھارویں صدی میں ویچو،ٹین اور مادام ڈی سٹیل نے مادیت پسندی کے نقظہِ نظر سے حسن وجمال کی ماہیت، معیار،مسائل اور اقدار پر بحث کی۔روس میں چرنی شوفسکی نے فیورباخ کے مادیت پسندی کے نظریے کو اختیار کرتے ہوئے ہیگل کے عقلیاتی نظریہِ جمالیات کی تردید کی اور حسن کا مادی نظریہِ جمالیات پیش کیا۔چرنی شوفسکی نے کہا کہ افادہ اور حسن باہم دگر قریب ترین اور مربوط ہیں۔
چرنی شوفسکی کے نزدیک حسن وجمال ہمیں اس مسرت وفرحت سے ہم کنار کردیتا ہے،جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔اس مسرت وفرحت کا لازمی طور پر ہمہ گیر ہونا اس لیے لازمی ہوجاتا ہے کہ صرف اس طرح وہ مختلف الانواع قالب کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔اس کا عمومی ہونا بھی لازمی ہے۔اس لیے کہ ہمیں حسن وجمال بہت سی اشیاء اور مظاہر میں دکھائی دیتا ہے،جو باہم دگر مختلف نوعیت اور شکل و صورت کی ہیں۔آخر وہ کیا شئے ہوسکتی ہے؟وہ شے،جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام دیگر اشیاء ظواہراور مظاہرِ کائنات میں مشترک بھی ہے،جو اس کو عزیز ہیں،وہ زندگی ہے۔لہذا وہ اشیاء ،جو اپنی صورت اور موادکے ذریعے زندگی کی ہمہ گیری اور ہمہ جہتی کا اظہار بلاواسطہ یا بالواسطہ کریں،ہمیں ان کی یاددہانی کرائیں،حسین وجمیل ہیں۔
اس طرح چرنی شوفسکی زندگی کی ہمہ گیری اور اس کے عروج و علوکو حسن و جمال کا خارجی معیار قراردیتا ہے۔لیکن ہر نوع کی زندگی کی ہمہ گیری اور عروج وعلوہمارے لیے حسین و جمیل نہیں ہوسکتا ہے۔اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ ہم کس طرح کی زندگی کو بہتر اور اعلیٰ تصور کرتے ہیں۔چوں کہ چرنی شوفسکی حسن و جمال کے اس داخلی معیار سے بھی بخوبی واقف ہے۔اس لیے اس نے جمالیاتی قدر کو اس سے مربوط تصور کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ حسن و جمال وہ شئے ہے،جس میں ہمیں وہ زندگی دکھائی دے،جو زندگی سے مراد ہے۔(28)
علاوہ بریں تاریخِ جمالیات میں لاتعدادباہمدگر مختلف و متضاد نظریاتِ جمالیات موجود ہیں۔ان سب نظریاتِ جمالیات کو اگرمختصر الفاظ میں سمیٹا جائے توثابت ہو گا کہ یہ نظریات دو بڑی قسموں کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں بعض یا تو موضوعی ہیں یا معروضی ہیں۔جمالیات کے موضوعی نظریے کے مطابق اشیاء بذاتِ خود حسین ہیں نہ قبیح ہیں۔ ان کاحسن تو ناظر کے حسنِ نظر کی فسوں کاری کا نتیجہ ہوتا ہے۔موضوعی نظریہِ جمالیات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈیوڈ ہیوم تحریر کرتاہے:
” اشیاء کا حسن وجمال محض انسانی ذہن میں موجود ہوتا ہے،جو ان کا فہم وادراک کرتا ہے۔” (29)
جب کہ جمالیات کے معروضی نظریے کے مطابق حسن ناگزیر طور پر انسانی ذات سے باہر موجود ہوتا ہے۔حسن مستقل بالذات اور قائم بالوجودہے،جو اپنے وجود کے لیے کسی دیکھنے والے کی حسنِ نظرسے بالکل بے نیاز ہوتا ہے اور کسی ناظرکے حسنِ نظر کی کرشمہ سازی اور فسوں کاری کا محتاج ہرگزنہیں ہوتاہے۔بلکہ وہ اناظر کے حسنِ نظر کے بغیر بھی اپنی ذات میں حسن وجمال ہوتا ہے۔
اگر حسن کو خالصتاًمعروضی تسلیم کرلیا جائے توسوال پیدا ہوتا ہے حسن کی اقدار،تصورات، اذواق و امیال،رحجانات اور معیارات ہر دور اور ہر ماحول میں حسن کے معیارات اور اقدار بھیایک جیسے اورناقابلِ تغیر ہوتے اور اس کے اثرات بھی تمام دنیا کے افراد پر یکساں طور پر مرتب ہوتے۔ جب کہ ہمارا مشاہدہ ثابت کرتا ہے کہ حسن وجمال کے اثرات مختلف لوگوں پر مختلف انداز میں مرتب ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر نہ توکسی شئے کو معروضی طور پرحسین وجمیل قرار دیاجا سکتا ہے اور نہ ہی قبیح تصور کیا جاسکتا ہے۔اس نظریے کے برعکس اگر حسن کو مکمل طور پر موضوعی تصور کرلیا جائے تویہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں کائنات کے بعض مظاہرو ظواہر تو حسین و جمیل دکھائی دیتے ہیں اور بعض قبیح نظر آتے ہیں؟اگر معروضِ حسن میںآفاقی دل کشی نہ پائی جاتی ہو تو محض موضوعی طور پر اس کا ادراک واحساس کیسے کیا جاسکتا ہے؟اگرحسن وجمال کے معروض میں ایسی صفات موجود نہ ہوں، جو انسانی ذہن میں مہیجات اور تاثرات پیدا کرسکیں تو وہ اس کا ادراک واحساس نہیں کرسکتا ہے۔
اس بنیاد پر اس نظریے کو صحیح تسلیم کرلینے سے حسن وجمال کی آفاقی کشش اور ہمہ گیری کا انکار لازم آتاہے اوراس طرح سے حسن وجمال کی معروضیت کی بھی نفی ہوجاتی ہے،جس کا ابطال کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ حسن وجمال کے بارے میں مختلف عہد اور سماج یا ایک ہی عہد اورسماج میں رہنے والے افراد کے ذوقِ جمال کے اختلاف کے باوصف بھی حسن و جمال میں ایک خاص نوع کی آفاقی دلکشی پائی جاتی ہے،جو ہر شخص کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔مثال کے طور گلاب اور دیگر پھولوں میں دنیا بھر کی ہر قوم اورہر شخص کے لیے ایک خاص نوع کی آفاقی دلکشی موجود ہوتی ہے ،جسے ہر شخص محسوس کرسکتا ہے۔اس لیے اقوامِ عالم خصوصاً جاپانی، ہندوستانی، ایرانی اور یورپی اقوام پھولوں کو دل وجان سے پسند کرتی ہیں۔
اس لیے حسن نہ تو کلیتاً موضوعی ہوتا ہے اور نہ ہی کاملاً معروضی ،بلکہ ہردو کے مابین جدلیاتی رشتوں کے تعامل کے امتزاج سے وجود پذیر ہوتا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمالیاتی موضوع اور معروض سے کیا مراد ہے اور ان ہر دو کے مابین کیا تعلق ہے ؟کائنات من حیث المجموع جمالیاتی معروض ہے۔اس کے تمام مظاہروظواہر،پہلو اور تعلقات جمالیاتی معروض ہیں۔یہ سب انسان کے لیے اہمیت، معانی اور قدروقیمت کے حامل ہیں۔انسان ٹھوس تاریخی حالات میں بحیثیت ٹھوس ہمہ پہلو کلیت جمالیاتی موضوع ہے۔
انسانی محنت کی ہر پیداوار قدرِ استعمال اور قدرِ تبادلہ کی حامل ہوتی ہے،جو انسان کی خاص صفت کی معروضیت کی نمائندگی کرتی ہے اور اس کی انسانی آفاقیت کی تاریخی سطح کو ظاہر کرتی ہے۔یہی وہ وسیلہ ہے،جس کے ذریعے انسان اور کائنات کے مابین جمالیاتی رشتہ کارفرما ہوتا ہے۔انسان اپنے تاریخی ارتقاء کے دوران فطرت کی قوتوں کوجس قدر مسخر کرکے انہیں اپنا مطیع بناتا گیا،اس قدر ان پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اس کی ذات کی مہر ثبت ہوتی گئی۔اس طرح انسان کی صلاحیتیں اور قوتیں کھلی کتاب کی طرح واضح ہو تی گئیں۔انسان کی صلاحیتوں اورقوتوں کے اظہار کے لیے کائنات کے مظاہروظواہر کا معروضی طور پر موجود ہونا ہی کافی نہیں ہے۔بلکہ معروض کے لیے موضوع کا وجود بھی ضروری ہوتا ہے۔کیوں کہ ہر دو باہمی طور پر لازم و ملزوم ہیں۔موضوع معروض کو جمالیاتی تحسین کے بالقوہ (potential)معروض سے حقیقی بالفعل معروض میں تبدیل کرتا ہے۔ معروض موضوع کا اس طرح تقاضا کرتا ہے،جس طرح حسنِ خوابیدہ کو خواب وخیال کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں بیدار کرنے کے لیے ایک عاشق کے بوسے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیوں کہ حسن وجمال کے معروض کے اثرات اورمہیجات جب انسانی ذہن پر مرتب ہوتے ہیں تووہ اس میں جذبات ،احساسات اور ادراکات پیدا کرتے ہیں۔اسی طرح وہ اس کی تحسین کرتا ہے۔ یعنی حسن و جمال کامعروض انسانی جسم پر اثرانداز ہوتا ہے ۔انسانی جسم کے حسی اعصاب حسن کے معروضی مہیجات کو قبول کرتے ہیں۔دماغی خلیے اس ردِ عمل کو متعین کرتے ہیں اور حرکی اعصاب میں تحرک وتعمل پیدا ہوتا ہے۔اسی جدلیاتی تعامل کے نتیجے میں انسانی ذہن میں احساسات، جذبات،ادراکات اور خیالات وجود پذیر ہوتے ہیں ۔ اس طرح انسان حسن کا ادراک کرنے کے قابل ہوتا ہے۔یہی وہ نظریِہِ جمالیات ہے، جو لینن کے مادی نظریہِ انعکاس پر مبنی ہے۔
لینن کے مادی نظریہِ انعکاس کے مطابق علمِ انسان فطرت کی معروضیت کا ذہنِ انسانی میں انعکاس ہے ۔ وہ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل انفاظ میں تحریر کرتا ہے:
“علم (بذریعہِ انسان ) فطرت کا انعکاس ہے۔ لیکن یہ سادہ ، بے جان، مجرد ، جامد ،بلاواسطہ اور سالم ہرگز نہیں ہوتا ہے ۔بلکہ مختلف ذہنی الجھنوں،تصورات، اصولوں ، تضادات کے ظہور اور ان کے حل سے پیدا ہوتا ہے”۔(30)
تصور خواہ حسن کا ہو یا کسی اور شئے کاہو جدلیاتی طور پر موضوعیت و مومعروضیت کے رشتوں سے ہی وجودپذیر ہوتا ہے۔اس لیے لینن نے کہا ہے:
“تصور موضوعیت =)انسان(کا معروضیت سے تعلق ہوتا ہے،جو معروضیت سے بذاتِ خود=)خودمختارہوتا ہے،جیسا کہ وہ ہے) اور معروضیت(اس تصور )سے مختلف ہوتی ہے۔ ” (31)
“The idea is the relation of the subjeivity(=man) which is itself(=independent, as it were) to the objectivity which is distinct (from this idea)…”(16)
یہی وہ جدلیاتی مادی اصول ہے،جس پر لینن کے نظریہِ جمالیات کی اساس ہے۔لینن اپنی زندگی میں بھی ترتیب و تنظیم کو بے حد اہمیت دیتا تھا،جو حسن وجمال کی بنیادی صفات ہیں۔ رابرٹ سروس تحریر کرتا ہے:
“درحقیقت وہ ایک قابل پینٹر تھا۔اس نے اپنے دوست کے لیے ایک خوب صورت پوسٹ کارڈبنایا،جو واضح رنگوں میں پینٹ کیا گیا تھا۔اس میں خاص بات یہ تھی کہ کہیں بھی رنگ کا دھبہ نہیں پڑا تھا۔لینن پہلے سے ہی ہر چیز کے بارے میں کاملیت پسند تھا،جو وہ دوسروں کو دکھانے کا ارادہ رکھتا تھا۔پوسٹ کارڈ میں ایک خفیہ پیغام موجود تھا،جس میں ریڈ انڈین ،درختوں کی تصاویراورپانی میں کسی ڈوبتے ہوئے شخص کی تصویر دیکھنے والے کے لیے کسی قابلِ شناخت چیز کی وضاحت کرتے ہیں۔ ” (32)
“دراصل اسے غلاظت سے نفرت تھی ۔۔۔اور وہ اپنے خاندان کے افراد کو ڈانٹا تھا اگر وہ اپنے لباس بٹنوں کو ٹانکنے اور اپنے جوتوں کی مرمت کروانے میں ناکام رہتے تھے۔”(33)
رابرٹ سروس مزید تحریر کرتا ہے:
“اس کی پنسلیں ہمیشہ ترشی ہوئی رکھی ہوتی تھیں اور اس کا ڈیسک بہت خوب صورت سے منظم ہوتا تھا۔وہ اسے روزانہ صاف کرتا تھا۔اسے اسراف سے بھی نفرت تھی۔جب وہ خالی جگہوں کے ساتھ خطوں کو وصول کرتا تھا تو ان خالی جگہوں کو کاٹ کر غیر استعمال شدہ کاغذوں کو اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔وہ اپنے پیسوں کے بار میں بہت محتاط تھا اور ڈمٹری کو کتاب فروشوں کی دھوکہ دہی کے خلاف تنبیہہ کرتا تھا۔”(34)
“لینن نے زندگی کو اپنے طورطریقوں سے گزارا تھا۔وہ گھر اور اسکول میں ایک خوش باش بچہ تھا۔اس نے بلوغت میں بھی یہی معیار قائم رکھا۔اس کی کتاب بینی کا ذوق،دوسروں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کا رحجان،باقاعدہ ورزش کرنے کا معمول اور دوسروں کو سیاست فلسفے اور میڈیکل علاج معالجے تک کے موضوعات پرمشورے دینے کی عادت۔۔ اس کی شخصیت کے یہ سب کے سب پہلو اس کی عبقریت کی شہادت دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لینن ہر چیز کو تریب و تنظیم سے رکھتا تھا۔۔۔۔آیا اس کے ڈیسک پر پنسلوں کی قطار ہو یا روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی سیاسی اور معاشی حکمتِ عملی ہو۔” (35)
رابرٹ سروس ویلننٹف کے حوالے سے تحریر کرتا ہے:”جرمنی میں اپنی جلاوطنی کے دوران لینن اپنی کتابوں کو جھاڑتا تھا۔اپنے کپڑوں کے ڈھیلے بٹن ٹانکتا تھا۔وہ اپنے جوتے پالش کرتا تھا۔وہ پیٹرولیم سے اپنے کپڑوں پر لگے ہوئے داغوں کو دھوتا تھا۔وہ اپنی سائیکل کو اس طرح صاف رکھتا تھا،جیسے وہ کوئی آلہِ جراحی ہو۔لیکن یہ وہ کام تھے،جو اس کی شخصی صفائی سے مربوط تھے۔”(36)
لینن کاکمرہ اور دفتر صفائی ستھرائی اور نظم و ضبط کابہترین نمونہ تھے۔وہ ان چیزوں میں لاپرواہی کو ناپسند کرتا تھا۔اس نے مہمانوں اور ملاقاتیوں کوسگریٹ نوشی سے منع تو نہیں کیاتھا،لیکن جب کوئی سگریٹ سلگاتا تھا تو معنی خیز انداز میں اس کے ماتھے پر بل پڑ جاتے تھیاور وہ کمرے کی کھڑکیوں کو کھول دیتا تھاچاہے موسم کتنا ہی یخ بستہ کیوں نہ ہو۔حتی کہ برف باری کی بھی وہ پرواہ نہیں کرتا تھا۔
اس کے بارے میں کلارازیٹکن لینن سے متعلق اپنی یادداشتوں میں تحریر کرتی ہے:
“۔۔۔۔۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لینن مردوں اور عورتوں کی سماجی برابری کا قائل تھا۔اس کے نزدیک کوئی کمیونسٹ اس اصول سے انکار نہیں کرسکتا۔لینن سے اس موضوع پرمیری اولیں طویل گفتگو 1920ء کے موسمِ خزاں میں کریملن میں لینن کی وسیع مطالعہ گاہ میں ہوئی۔ وہاں لینن کی لکھنے والی میز بہت سے کاغذات اور کتابوں کے انبار سے اٹی پڑی تھی۔لیکن اس بے ترتیبی میں بھی ایک ترتیب و تنظیم تھی۔عام طور پر یہ خیال کیاجاتا ہے کہ نابغہ ترتیب وتنظیم سے بے نیاز ہوتے ہیں اور وہ اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور جس قدر بے ترتیبی اور انتشا ر ان کی زندگی میں ہو وہ اس قدر عظیم نابغہ ہوتا ہے۔لیکن لینن کے بارے میں یہ بات درست نہیں تھی۔”(37 )
یہی ترتیب و تنظیم اور توازن وتوافق لینن کو مظاہرِ فطرت میں بھی دکھائی دیتے تھے۔اس لیے وہ حسنِ فطرت کا دل دادہ تھا۔وہ خوب صورت مناظرِ فطرت کی رنگارنگی اور تنوع سے بے حد متاثر ہوتا تھا۔اس بات کا اظہار اس نے مختلف موقعوں پر اپنی تحریروں میں بھی کیا ہے۔مثال کے طور پرجب وہ پہلی مرتبہ 1895ء میں سوئٹزر لینڈ گیا تو اس نے وہاں کے فطری مناظر کی دل کشی کے بارے میں اپنی والدہ کو ایک خط میں تحریر کیا:
“سوئٹزرلینڈ کے مناظر اس قدر شان دار ہیں کہ میں ہر وقت ان سے لطف اندوز ہوا ہوں ۔۔۔میں ریلوے کیرج کی کھڑکی سے خود کو دور نہیں ہٹا سکا۔” (38)

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *