Home » قصہ » وقت سے مسابقت ۔۔۔ فرحین جمال ۔ بیلجیم

وقت سے مسابقت ۔۔۔ فرحین جمال ۔ بیلجیم

وہ سرپٹ بھاگے جا رہا تھا .ایک لمبی سڑک تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ، پاؤں من من کے ہو چکے تھے ،کپڑے گرد و غبار سے اٹے ہوئے اس کے جسم سے جھول رہے تھے ، صبح جو قمیص سفید تھی ،اس وقت سیاہی مائل مٹیالا رنگ دھار چکی تھی ، ھوا کے گرم گرم بھپکے اس کے گالوں کو جھلسا رہے تھے جسم پسینے سے شرابور تھا ہاتھ اور پاؤں ایک مخصوص حرکت کے تحت آگے پیچھے ہل رہے تھے . وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ دن کا کون سا پہر ہے ؟ اس کی آنکھوں کے سامنے تو بس وہ راستہ تھا اور اسے دوسرے سرے پر پہنچنا تھا . اب تو سڑک کے کنارے کھڑے لوگوں کی آوازیں بھی معدوم ہوتی جا رہی تھیں جو اپنے اپنے پسندیدہ حریف کی پذیرائی کے لئے وہاں موجود تھے ۔
اس دوڑ کا انعقاد اس کے شہر کی عسکری قیادت نے کیا تھا ، نوجوان جوق در جوق اس میں شامل ہونے کے لئے آ رہے تھے،تاکہ اپنا نام رجسٹر کروا سکیں ،ہر طرف گہما گہمی تھی .پھر اس دوڑ کو جیتنے والے کے لئے بہت خطیر رقم کا ا علان ؛ فوج میں اعلی عہد ے پر بھرتی ایک بڑا محرک تھی ۔
رابرٹ ایک صحتمند ،کسرتی جسم کا بائیس سالہ نوجوان تھا اپنے کالج کی فٹ بال ٹیم کا کپتان رہ چکا تھا . اس نے پچھلے سال ہی کالج ختم کیا تھا اور آج کل فارغ تھا .اس نے کبھی سوچا بھی نا تھا کہ وہ اس ریس میں حصہ لے گا۔
اسے فوج سے ایسا کوئی خاص لگاؤ بھی نہیں تھا ،وہ اپنے باپ کی طرح شہر کی سب سے بڑی کار ساز فیکٹری میں ملازمت کو فوج میں بھرتی ہونے پر فوقیت دیتا ، اسے قانون و ضوابط سے شدید نفرت تھی ،لگے بندھے اصولوں کے تحت زندگی گزارنا اس کے لئے مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا . اس کے مزاج کی خودسری عدم برداشت اور جنون اسے کسی کے ماتحت کام کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی تھی.
یہ وہ دور تھا جب امریکہ میں صنعتی شعبہ روبہ زوال تھا ، عالمی سطح پرسٹیل اور لوہے کی قیمت میں اضافہ ، کساد بازاری اور مفاد کی روش نے کار سازی کی صنعت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا .بڑے بڑے صنعت کار اپنی فیکٹریوں میں کار کنوں کی تعداد میں کٹوتی کرتے جا رہے تھے ،اب صرف وہی کارکن بچے تھے جو کسی نہ کسی شعبے میں ماہر سمجھے جاتے تھے ، ان کا شہر بھی اسی کٹوتی کی زد میں تھا اور رابرٹ کا باپ کئی مہینوں سے بیکار تھا ،وہ بھی ان مزدوروں میں شامل تھا جن کی پہلی کھیپ فیکٹری سے نکالی گئی تھی .
’ امریکن ڈریم‘ اب ایک بھیانک خواب بنتا جا رہا تھا .
آج صبح وہ باپ کے ٹرک میں اپنی ماں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ اس مقام تک آیا تھا جہاں سے ریس کا آغاز ہونا تھا . اس کی ماں نے جاتے جاتے ایک کافی کا تھرماس ؛ سنڈوچ اور تولیہ ایک بیک پیک میں ڈال کر اس کے حوالے کیا ،وہ بہت ہی مضطرب اور پریشان تھی ،بار بار رابرٹ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا یہ اس کا آخری فیصلہ ہے .
تم اب بھی ہمارے ساتھ واپس جا سکتے ہو ،! اس کی ماں نے رابرٹ کو گلے لگاتے ہوے کہا ..
نہیں ماں !! میں فیصلہ کر چکا ہوں ..اب پیچھے نہیں ہٹوں گا .!! .
گاڑی سے اتر کر رابرٹ اپنا نام لکھوانے اور نمبر والی ٹی شرٹ حاصل کرنے کی غرض سے عارضی طور پر بناے گئے کیبن کی طرف چلا گیا . نوجوانوں کا جو ش و خروش بڑھتا جا رہا تھا ؛ ریس آٹھ بجے شروع ہونا تھی اور ابھی صرف سات بجے تھے ،رابرٹ کو بہت سے کالج کے دوست اور جان پہچان کے لڑکے نظر آے پر اس نے کسی سے بات نہیں کی ،اندر جا کر اپنا نام لکھوایا اور رننگ گیر حاصل کیا. واپس آ کر اپنی ماں اور بھائی سے دوبارہ ملا اور باپ سے ہاتھ ملایا ، “شام کو اختتامی حد پر ملیں گے ” کہہ کر دوسری طرف مڑ گیا ،اس کی ماں پیچھے مڑ مڑ کر اسے دیکھتی رہی لیکن اسنے ایک بار بھی ماں کی طرف نہیں دیکھا مبادا اس کا ارادہ نہ بدل جائے ۔
ٹھیک سات بجے ایک فوجی اہلکار نے مائیک سنبھالا اور ریس کے چیدہ چیدہ اصول بتانے لگا ، اس لمبی مسافت کی ریس میں کسی بھی شریک مقابلہ کو ایک منٹ سے زیادہ کہیں بھی رکنے کی اجازت نہیں ہو گی، “اس لمبی مسافت کی ریس میں” اگر وہ رکا تو اسے ریس سے باہر نکال دیا جاے گا ، ایک ابتدائی طبی امداد کی گاڑی ساتھ ساتھ جاے گی،جس میں پانی ،ادویات اور سٹیچرہر وقت موجود ہو گا ، شریک مقابلہ کو آپس میں بات کرنے ، سڑک کے دونوں طرف کھڑے اپنے حامیوں سے بھی کسی قسم کا کوئی رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی ،اگر کوئی بھاگتے ہوے گر پڑے تو دوسرا اس کو نہ سہارا دے گا اور نہ ہی اٹھاے گا ،بس اپنی دوڑ جاری رکھے گا ..!! ریس شام کو سورج غروب ہونے سے پہلے ختم ہو جاے گی ۔
سمجھ آ گیا ! فوجی اہلکار نے چیخ کر سب سے تصدیق چاہی .شرکاء مقابلہ نے اثبات میں جواب دیا .انہیں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی گئیں اور کپڑے تبدیل کرنے کے لئے کیبن میں بھیجا گیا . ٹھیک آٹھ بجے سب شرکاء مقابلہ نقطہ آغازپر جمع ہو گئے .. سڑک کے دونوں جانب لوگوں کا جم غفیر تھا ،جو نعروں اور رنگ برنگی جھنڈیوں کو لہرا لہرا کر اپنے اپنے ساتھی کی حمایت کر رہے تھے ،رابرٹ بھی اپنے دوستوں اور کالج کی لڑکیوں کا جوش وخروش دیکھ رہا تھا .
دوڑ پستول سے نکلی گولی کی مہیب آواز سے شروع ہو چکی تھی ، رابرٹ کے جوتے انتہائی مہارت سے سڑک کی مسافت کو چاٹنے لگے .وہ ایک خاص توازن اور روانی سے اپنی رفتار کو ایک حکمت عملی کے تحت مسلسل برقرار رکھے ہوے تھا ،ہر کلومیٹر کے خاتمے پر ایک گھنٹہ بجا کر اس کا ا علان کیا جاتا اور کتنا فاصلہ رہ گیا ہے بتایا جاتا . ابھی ابتدا تھی اسلئے سب بڑی دل جمعی سے دوڑ رہے تھے ، ہر دو کلومیٹر کے بعد پانی کی بوتلیں بھاگتے ھوے نوجوانوں کی طرف اچھالی جاتیں .
اک دکا رک کر پانی سے اپنی پیاس بجھانے لگتے تو لاوڈ سپیکر پر انہیں انتباہ کیا گیا کہ وہ دوڑ کو جاری رکھیں اور بار بار ایک منٹ کے سیکنڈ کو گنتی کی صورت میں دوہرایا جاتا ..ایک،دو تین …سیکنڈ .
جب ایک تہائی فاصلہ طے ہو گیا تو کسی کسی چہرے پر تھکن کے اثار دیکھے جانے لگے ، قدموں کی روانی اور تال میں تبدیلی آنی لگی . سانسوں کا زیر و بم مدھم ہونے لگا ، جسموں سے پسینہ پانی کی آبشار کی طرح بہہ نکلا ،پیاس نے شدت اختیار کر لی .
رابرٹ بہت سہولت اور آسانی سے دوڑ رہا تھا اس کے حامی چیخ چیخ کر اس کا حوصلہ بڑھا رہے تھے ‘ اے رابرٹ ‘ ” گڈ بوائے ” اور تیز ،شاباش ،یہ دوڑ تم ہی جیتو گے ” آغاز میں لوگوں کے ہنستے مسکراتے چہرے ،سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والی حسیناؤں کے جلوے اور ان کا یوں اچھل اچھل کر اپنے پسندیدہ نوجوان کی حمایت کرنا اسے بہت بھا رہا تھا ،اس کے جوش اور ولولے میں اضافہ ہو جاتا تھا ،یہ آوازیں اس کے زہن کو چوکنا رکھتیں .
فاصلے سمٹتے جا رہے تھے ،سڑک پاؤں تلے پھسلتی جا رہی تھی ، آس پاس سے بے نیاز وہ بھاگ رہا تھا ،اسے یہ ریس ہر حال میں جیتنی تھی . پچاس کلومیٹر کے بعد جسم آہستہ آہستہ اس کے ارد گرد گرنا شروع ہو گئے تھے ،اس نے اپنے ساتھ بھاگتے نوجوان کو سہارا دینا چاہا تو اسے فورا” انتباہ کیا گیا کہ وہ ایسا کرنے سے بازآ جاے اسنے ساتھ والے کو زمین بوس ہوتے دیکھا لیکن مجبور تھا کچھ نہیں کر سکتا تھا ،اس دوڑ میں ہر فرد صرف اپنی بقا کی جنگ سے نبرد آزما تھا . ،کچھ دوسروں کے پیروں تلے آ کر زخمی بھی ہو رہے تھے لیکن دوڑ جاری تھی .راستے میں ہی انہیں کھانے کے لئے سنڈوچ دیئے گئے تھے جو بھاگتے بھاگتے ہی پیٹ کو بھرنے کے لئے جلدی جلدی حلق سے اتارے گئے .
اب دن چڑھ آیا تھا،دھوب میں تمازت بڑھتی جا رہی تھی ،پانی جسم سے بہہ بہہ کر ٹی شرٹ اور شورٹس کو بھگو چکا تھا ،کپڑے جسم سے ایسے چپک گئے تھے جیسے کہ دوسری کھال منڈھ دی گئی ہو . بدن کا درجہ حرارت سو ڈگری سے اوپر جا چکا تھا ، سرگرمی کی شدت سے سر گھوم رہا تھا لیکن وہ دوڑ رہا تھا ،اپنی بقا کے لئے ،اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے . سو کلومیٹر کا فاصلہ بھی طے ہو گیا . زمیں خود بخود اس کے پیروں تلے سے کھسکتی جا رہی تھی،اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ہوا میں تیر رہا ہے . جوتے زمیں پر پڑتے ہی ،فضا میں بلند ہو جاتے ،ایک طرح کی موسیقیت پیدا ہو گئی تھی اس کی دوڑ میں جیسے اس کا سارا جسم کسی ان دیکھے تاروں سے بندھا ہوا ہے اور کوئی ان تاروں کو ایک مخصوص دھن پر دھیرے دھیرے چھیڑ رہا ہے .
آدھی مسافت کے بعد چاروں طرف سناٹا سا محسوس ہونے لگا ،سڑک کے اطراف میں لوگ اب بھی موجود تھے ، وہ اسی طرح چیخ رہے تھے ، کان ان آوازوں کو سن تو رہا تھا لیکن دماغ انہیں سمجھ نہیں پا رہا تھا دوپہر کے ساے لمبے ہونا شروع ہو گئے .رابرٹ کو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ اس کی ماں نے اسے کافی بنا کر دی تھی ،اس وقت تھکن میں اس کی شدید طلب محسوس ہو ئی مگر ،وہ “بیک پیک ‘ تو کب کا زائد وزن کی مد میں اپنی کمر سے اتار کر کہیں پیچھے پھینک آیا تھا . دوڑ کے شرکاء کافی حد تک چھٹ چکے تھے اب گنتی کے حریف رہ گئے تھے اور ان کا حال بھی پتلا تھا . کبھی کبھی لاوڈ اسپیکر کی کریہہ آواز اس کے کانوں سے کسی بم کی طرح آ کر ٹکرا جاتی تو وہ چونک کر آس پاس خوفزدہ سی نظر دوڑا دیتا ،اس کا باہر کی دنیا سے رابطہ تقریبا” منقطع ہو چکا تھا ،بس وہ تھا اور اس کے سامنے ناگ کی طرح بل کھاتی کالی سڑک جسے اسے اپنے قابو میں کرنا تھا جتنا وہ آگے کی طرف جاتا اتنا ہی یہ سڑک بڑھتی جاتی ،اسے لگتا کہ یہ اس سے باتیں کر رہی ہے ، اس کی حالت پر ہنس رہی ہے ، مذاق اڑا رہی ہے . اس کی سماعت اور بصارت ساتھ چھوڑتی جا رہی تھی ،جسم تھکن سے چور چور تھا ، جس کا ایک ایک جوڑ ہر اگلا قدم اٹھانے پر فریاد کر رہا تھا کہ بس اب اور نہیں !.لیکن وہ دوڑ رہا تھا ،ہر طرف سے بے نیاز ،اسے طرح طرح کے واہموں نے آ گھیرا تھا .کبھی کبھی وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا تو دور دور تک کوئی ذی روح نظر نہ آتا .دماغ گرمی، مسلسل پانی کی کمی ، جسم کے بلند درجہ حرارت اور تھکن کی وجہ سے سکتے کی حالت میں تھا ،وہ خود سے باتیں کرتا،ہذیان بکتا بھاگا چلا جا رہا تھا . اختتامی لکیر آدھا کلو میٹر ہی رہ گئی تھی ،آنکھوں کے آگے سیاہ ساے بڑھتے جا رہے تھے ،وہ ہاتھ بڑھا بڑھا کر خیالی آسیبوں سے لڑ رہا تھا .
کبھی کبھی اسے لگتا کہ وہ اپنی ماں کی گود میں ہے اور کہانی سن رہا ہے ،ماں جھک کر اس کا ماتھا چوم لیتی ہے ،وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے ،اسے اپنی آواز ہی اجنبی محسوس ہو رہی ہے ،آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے ،قدم اب ڈگمگا رہے ہیں ،کہیں دور لوگوں کا ایک بڑا ہجوم اس کے استقبال کے لئے موجود ہے ،ان کے نعروں سے فضا گونج رہی ہے لیکن اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا ،… اور آخر اس نے آخری کلو میٹر بھی مکمل کر لیا ،وہ اپنے حدف تک پہنچ گیا .
دوڑ ختم ہو گئی ،وہ جیت گیا لیکن یہ کیا ؟؟ وہ اب بھی بھاگ رہا تھا اس اندھیرے کی جانب جواس کی ذات میں سرایت کر چکا تھا

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *