Home » قصہ » ننگا آسمان ۔۔۔ شیام جے / ننگر چنا

ننگا آسمان ۔۔۔ شیام جے / ننگر چنا

چرچ گیٹ کی طرف جانے والی لوکل ٹرین۔ راستہ کے قریب، مسافروں کی روزمرہ کی بھنبھناہٹ بند کرادینے والی چیخ۔
” پک۔ پاکٹ!”۔۔۔ اور شور کا بڑھ جانا۔ اس گاڑی میں روزانہ سفر کرنے والے مسافروں کو پتہ تھا کہ دودن پہلے کسی غریب کلرک نے اپنا بٹوا نکلوایا تھا۔ بیٹھے ، کھڑے ہوگئے ، کھڑے ہوؤں نے ایڑیاں اوپر کیں اور کچھ تو جوش میں دروازے کی طرف بڑھ گئے ۔
” مارو، مارو۔”
” پیٹو سالے کو۔” اور چھتریاں مارنے کی آوازیں۔
” ۔۔۔لیکن گاڑی تو فاسٹ ہے ۔”
“۔۔۔ تو چرچ گیٹ لے چلو اسے ۔”
کسی نے اس کے پیٹ پر لات ماردی۔ وہ چہرے پر ہاتھ دے کر تھرتھر کانپ رہا تھا۔ اس کا ہاتھ ہٹایا گیا۔۔۔ اور اس کی بھنوؤں سے خون بہہ کر اس کی گردن اور کپڑوں سے ہوتا نیچے فرش پر گرنے لگا۔لیکن اس کی زبان بند تھی۔ کوئی چیخ نہ پکار نہ ہی کوئی رحم کی درخواست۔ ایک شخص نے اسے کچی گالی دے کربالوں سے پکڑلیا۔ ایک نے بیٹھے بیٹھے ہانک لگائی ؛
” ایک ایک کرکے بال اکھاڑو ا سکے ۔ بدمعاش ہماری کمائی کو باپ کا مال سمجھتے ہیں،”
مسافردروازے کے قریب جیب کترے کو پیٹنے میں مشغول تھے اور دیگر مسافر آہستہ آہستہ دھیان اِ دھر ہوتے ہوئے بھی تاش کھیلنے ، اخبار پڑھنے اور مجلس کرنے میں مگن ہوگئے ۔ جس کی جیب کاٹتے ہوئے وہ پکڑا گیاتھا، اس کے ساتھی نے زبردستی اس کی جیب سے سامان نکال لیا۔ دوچار رُپے ، آدھا میلا رومال، کچھ چھُٹے ، بغیر سکے کے پینسل، بلیڈکا نصف، دوتین دانوں والی ماچس اور شوا کی بیڑیوں کا بنڈل۔ چھیننے والے نے رقم اپنی جیب میں ڈال کر بقیہ سامان باہر پھینک دیا۔
ایک بزرگ جو اس تماشہ کے سبب اخبار توجہ کے ساتھ پڑھ نہیں پارہاتھا، نے اپنے چشمہ کے شیشوں کے اوپر سے دیکھتے ہوئے پکارا:
” یوں مارنے سے پولیس کے حوالہ کیوں نہیں کردیتے ، وہ اسے خود ہی سیدھا کرلیں گے ۔”
“پولیس۔۔۔! ایک مراٹھے نے حقارت بھرے انداز میں دوانگلیوں کے درمیان سے پان کی پیک باہر پھینکتے ہوئے کہا،” پولیس کھاتی ہے ہفتہ۔” اتنا کہہ کر اس نے جیب کترے کی گردن پکڑکر کہا:
” بتاؤ ،سُؤر ! کتنا ہفتہ دیتے ہو پولیس کو ؟”
اس کے قریب ہی ایک مدراسی پیشانی پر راکھ کا لیپ لگائے ، ہاتھوں میں اخبار مروڑے جنوبی ہندستان کے متعلق لیکچر دے رہا تھا، نے کہا:
” ابھی جاکے وہاں سیمنٹ پہنچا ہے ، نہیں تو برسوں سے وہاں کے لوگ ٹیڑھے میڑھے پتھر ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر ، گاچ اور چونا ملاکر پلیں بناتے آئے ہیں اور ریل کے حادثوں میں اپنی زندگیاں گنواتے آئے ہیں۔” اتنا کہہ کر جوں ہی اس نے ناک کے قریب نسوارکا چپٹا لاکر چھوٹی سانس لی، توں ہی چھینک آتے ہی اس کا دھیان جیب کترے کی طرف چلا گیا اور اس نے ایک دم سوال کیا:
” یہ ہے کہاں کا؟ اس کی وہ حالت کرو کہ کہیں بھی جا نہ سکے ۔” اتنا کہہ کر وہ چھینکوں کی زد میں آگیا۔
گاڑی گرانٹ روڈ پار کر چکی تھی اور لوگ جیب کترے کو مارنے میں مشغول تھے ۔ ایک شخص نے اچانک اس کی قمیض میں ہاتھ ڈالا، چرر۔۔۔رر، پھر تو کئی ہاتھ۔۔۔۔ہر ایک نے بہتی گنگا میں ہاتھ دالا۔۔۔ قمیض اور بنیان پھٹ کر ، لیرولیر ہوکر پرانے جھنڈے کی طرح لٹکنے لگیں۔ کسی زیادہ جوشیلے نے وہ جھنڈا بھی اتارکر گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ پاگل پن کی بھٹی تپ رہی، بھڑک رہی تھی۔
” مجھ پر رحم کرو۔۔۔ بھگوان کی سوگند پھر نہیں کروں گا۔” پہلی مرتبہ جیب کترے کی زبان سے رحم کی درخواست نکلی، لیکن بڑھنے والے اس کی طرف بڑھ رہے تھے ۔۔۔۔ جیب کترا نیچے بیٹھ گیا۔
” اٹھ کر کھڑا ہوجا ، سالے !”
” آج تک اس نے سینکڑوں جیبیں کاٹی ہوں گی۔۔ اس کی جیبیں دیکھو۔”
” اسے ننگا کرو۔”
گاڑی میں نقارخانہ والا شوروغل مچ گیا،جیب کترا تڑپا،چیخا چلایا، منتیں کیں، لیکن۔۔۔۔ سامنے بھی تپا ہوا بھٹہ تھا، جس نے اس کے بدن پر قدرت کے عطا کردہ لباس کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا تھا۔
وہ ننگا ، اُلٹا، گاڑی کے فرش پر پڑا ہوا تھا۔ اس پر جُوتوں اور تھوک کی بارش جاری تھی۔ لوگ اترنے کی تیاریوں میں تھے ۔ ایک دو نرم دل لوگوں نے مارنے والوں کو روکنے کی کوشش کی اور جواب میں سننا پڑا:
” تمہارا کیا لگتا ہے ۔۔۔تمہارا کیا جائے ۔” ایک نے تو اس مفت کی رحم دلی کے خلاف پیداشدہ غصہ کو نہ روکتے ہوئے ، اپنے منہ میں جلتی سگریٹ نکال کر جیب کترے کے ننگے بدن پر رکھ دی۔ مارکھایا، ادھ مُوا بدن تڑپا اور سگریٹ کا ٹوٹا، جو اس کی چمڑی سے تھوڑا چمٹ گیا تھا، وہ نیچے جاگرا۔اس کے بدن سے چمٹی ہوئی گندگی اور تھوکیں ننگے روپ میں تماشا کررہی تھیں۔ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچتے ہی گاڑی کی آواز بدل گئی۔
” اٹھ ، سالے ! اٹھ یہاں سے ۔” لیکن وہ اٹھے کس طرح ؟
” ہاتھوں سے اپنی شرم گاہ چھپاتا ہے !”۔۔۔۔ ٹخ ٹخ ۔۔۔ ایک قہقہہ ابلا۔
چرچ گیٹ کے بفروں سے لگ کر گاڑی رک گئی۔ ہجوم نے اسے کھینچ کھانچ کر باہر نکالا۔
” اسے پولیس کے حوالے کرو۔”
” نہیں، نہیں ۔ باہر نکالو تاکہ سب اسے دیکھ سکیں۔”۔۔۔ لوگوں کا شور تھا کہ بڑھتا ہی چلا جارہا تھا ور کونے میں کھڑا پولیس والا بڑے آرام سے منہ سے دھواں اُڑا رہاتھا۔ سُوجا ہوا چہرہ، چہرے پر پالش کے سادہ برش ایسی سخت داڑھی، اٹھنے کی سکت نہ ہی چلنے کی ہمت، نہ ہی کسی کی طرف دیکھ پانے کی جرئت۔۔۔ وہ اُٹھتا، گرتا پڑتا، فوٹ بال کی طرح لاتیں کھاتا ، سٹیشن سے باہر پہنچا۔ باہر تیز بارش ہورہی تھی۔ پکی سڑک پر پہنچنے کے بعد۔۔۔ اچانک ۔۔۔ اس نے دوڑنا شروع کیا۔ اگلوں نے حیرت کے مارے دیکھا اور کوئی پاگل جانا۔ پچھلوں نے خوب قہقہے لگائے اور اس کی حالت پر مسکرائے ۔
جیب کترا لوگوں اور لوگوں کے راستوں سے دور میدان کی طرف دوڑا اور میدان کی کیچڑ اور پھسلن سے اپنے آپ کو بچاتے بچاتے آکر گر پڑا۔ اور اس نے اُٹھنے کی ہی نہیں کی۔ بغیر کوئی حرکت کیے چپ چاپ پڑارہا۔ کچھ وقت کچھ وقت کھڑے رہے ، کچھ بھنبھناہٹ اور اشاروں کے بعد ممبئی کی مہانگری کے رواج کے مطابق اپنے غموں اور فکروں میں ڈوب گئے ، کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
جیب کترا ایک لاوارث لاش کی طرح سرکس اور میلہ کے کراس میدان کی کیچڑ میں گرا۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ زورزور سے رونے لگا۔مار کھانے کے سبب اس کے بدن میں کھڑے ہونے کی سکت بھی نہ تھی۔ وہ دوڑا کیسے ؟ اسے یہ سوچنے کا ہوش بھی نہ تھا۔اسے جب سب کے سامنے ننگا کیا گیا تھا ، تب اس نے شترمرغ کی طرح زمین میں منہ چھپایا تھا اور جب تنہاہوا تھا ، تب اسے اپنی عریانی پرذلّت محسوس ہورہی تھی۔
کہیں سے بھی ۔۔۔۔ کسی بھی طرح، کاش ! اس ننگے بدن کو کچھ وقت کے لیے ڈھانپ سکوں !” اپنی عریانی کو ننگے روپ میں برداشت نہ کرپانے کے سبب ، اس کی یہ خواہش بڑھ کر سامنے کھڑے یونیورسٹی کے ٹاور جتنی ہوگئی۔ ٹرین سے نکالے جانے کے بعد اس نے پہلی دفعہ ہوش میں اِدھر اُدھر دیکھا۔
ایک طرف پارسیوں کا کنواں، دوسری طرف انپورنا۔۔۔ پورا میدان پانی سے بھراہوا۔ برسات، دُسہرے کے پٹاخوں کی طرح آوازیں کرکے برس رہی تھی اور بارش سے زیادہ تھی تیز ہوا۔ کھجور اور تارگول کے درخت تیز ہوا میں الٹی چھتریوں کی طرح جھوم رہے تھے ۔
“کیا اتنی بڑی بلند عمارتوں کی نگری میں میرے چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ؟ کیا میں اتنا لمبا نہیں ہو سکتا کہ یونیورسٹی کے ٹاور کی گھڑی کے کانٹے گھمادوں اور اندھیرا ہوجائے ۔” وہ اس طرح سوچتا رہا کہ کسی بھی طرح اندھیرا ہو جائے اور وہ تاریکی کی وسیع چادر میں لپٹ کر اس ذلّت، اس عریاں احساس سے مکت ہوسکے ۔ آسمان میں بادلوں کے ٹکرانے کے باعث برقی اثر پیدا ہوا۔ اوول گراؤنڈ کے کھجور اور تارگول کے درخت جھومتے رہے ۔ اس نے درختوں سے نظریں ہٹائیں تو اسے سامنے پانی کا گڑھا اور گڑھے کے قریب کچرے کا ڈھیر نظر آیا۔ اس کے ذہن میں بجلی کے کوندے کی طرح کوئی خیال چمکا اور وہ گھسٹ کر اس گڑھے تک آیا۔ اس نے گڑھے میں پاؤں ڈال کرپانی کاا ندازہ لگایا۔ پانی ڈیڑھ دوفوٹ کے قریب تھا۔ اپنا آپ ڈھکنے کے لیے اسے بیٹھنے کی بجائے پانی میں لیٹنا پڑا۔اس کا ننگا بدن مٹیالے پانی میں چھپ گیا۔ عریانی چھپانے کے بعد اس کی ہچکیاں بند ہوگئیں ، آنسو خشک ہوگئے ۔ نیچے پانی، اوپر بارش اور درمیان میں ہوا کو سرد بنانے لگیں اس کی ٹھنڈی سانسیں۔
اس دوران اس نے ہاتھ بڑھاکر کچرے کے ڈھیر سے ایک ٹوکری کھینچ لی۔ منہ پر ٹوکری ڈال کر ، جیب کترا ایک طلسمی چیز بن گیا۔ وہ خود تو سب کچھ دیکھ رہا تھا،لیکن اسے دیکھنا۔۔۔
خالی میدان کے چاروں طرف آمدورفت جاری رہی ۔ چھتریاں، کوٹ، بسیں اور موٹریں۔ جیب کترا نڈھال بنا پڑا رہا۔ وہ برسوں سے یہی دھندا کرتا آیا تھا۔ پھنسا بھی تھا۔ پولیس کے ہاتھوں پِٹا بھی تھا۔ جیل بھی گیا تھا۔ سَر تو کیا، بھنویں بھی جرمانے میں منڈوائی تھیں۔ لوگوں نے بھی اسے مارا تھا، لیکن آج کا دن۔۔۔۔ اس طرح اس کے خاندان کی عریانی کی نمائش۔۔۔ یہ ذلّت۔۔۔ ذلّت کا احساس !
۔ اور اسے اپنا باپ یاد آگیا۔ جیب کترے کا باپ جیب کترا۔ جس دن اس کا باپ اس کی ماں کے ساتھ ہنس کر بات کرتا، اس دن وہ روتی ہوئی جاکر ٹھاکروں کی پُوجا کرتی اور بیٹے کے سَر پر ہاتھ پھیر کر کہتی؛ ” میرے لال ! کاش تم اپنے باپ جیسے نہ بنو!” وہ سمجھ جاتا کہ آج اس کا باپ لمبا ہاتھ مارکر آیا ہے ۔ بقیہ دن وہ باپ کو ماں کے ساتھ بات کرتے دیکھتا ہی نہ تھا۔ اس کا باپ ہنستا تو بالکل ہی نہ تھا۔ گھر میں جیسے کوئی گونگی فلم چلتی رہتی تھی۔ اس چکنے دن پر باپ اس کی جیب میں کچھ رُپے ڈال کر کہتا:
” جا ،بیٹے ! دونڈو کاکا سے ہوآ۔” اس کی ماں دیکھتی، سنتی اور سَر پر چادر ٹھیک کرکے ، گردن موڑ کر کام کرتی رہتی اور وہ ۔۔۔۔ راستہ بھر بے مقصد پتھر اُٹھا کر بے مقصد نشانے لگاتا، پھینکتا ، دونڈو کاکا کی دُکان پر پہنچتا۔
” آؤ، آؤ، بغداد کے چور۔”
” کاکا ۔۔۔ یہ بابا نے ۔۔۔ ”
” ہاں ، ہاں ۔۔ میں سمجھ گیا۔ آج تیرے باپ کو مرغہ ہاتھ لگا ہے نا ؟” وہ چپ چاپ دیکھتا رہتا۔ دونڈو کاکا اس کی جیب سے پیسے نکالتا اور اس کے بدلہ میں کاغذ کی پڑیا اس کی جیب میں ڈال کر کہتا:
” یہ لو۔۔۔ یہ تیرے باپ کے لیے گولی۔ انعام کے طور پر اپنی گولیوں کے پیسے باپ سے ضرور لینا، آج اس سے مت ڈرنا۔ شاباش !دوڑ لگاؤ۔”۔ اور وہ واقعی دوڑ لگادیتا تھا۔
گولی لے کر اس کا باپ قہقہہ مارتا۔ سگریٹ سے آدھا تمباکو نکالتا، گولی میں مسلتا اور دم لگاتا ، اور پھر لال لال آنکھوں سے اس کی ماں کی طرف دیکھتا رہتا اور پرانی چارپائی پر لیٹ لیٹ کر، بے آرامی کے مارے کروٹیں بدلتا رہتا۔ اس کی ماں آنسو پونچھتی، روٹی پکانے میں مشغول ہوجاتی تھی۔
اس کی ماں کے دن دعائیں مانگتے مانگتے گذر گئے لیکن بیٹے نے یہ سوچاکہ اگر باپ جیسا نہ بنا تو ماں جیسا بن کر بھی کیا کروں گا ؟ مجبوری کے آنسو بہانے اور دعائیں مانگنے کی بجائے جیب کاٹنے کا روزگار اور چرس کس لحاظ سے خراب ہیں ؟ ۔ آخر کو مردانہ کام ہیں۔ اس کے علاوہ۔ اس کے باپ کو اچھا نہ سمجھتے ہوئے ، آنسو بہاتے اور برسوں سے ٹھاکروں کی پُوجا کرتے ہوئے بھی، اس کی ماں کیا اس کے باپ سے نفرت کرسکی تھی ؟ نہیں۔ اس سب کے باوجود اس کے باپ کی خدمت ہی ہوئی تھی۔ اس نے سب سوچ بچار کرکے اور جان پرکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ باپ ایسا بنے گا ، ماں ایسا نہیں۔
۔۔۔ اور آج جب باپ نہ رہا۔ اور ۔ اس وسیع میدان کے چھوٹے گڑھے میں وہ اپنی لاج شرم بچانے کے لیے چھپا ہوا تھا، تب پہلی مرتبہ اس کے پاس سوچنے کے لیے خیال موجود تھا۔ کیا سماج والوں کے سامنے اس کا ظاہری روپ یہی ہے ؟ کیا اس کا یہ روپ بدل نہیں سکتا ؟
اس اذیت کی چکی میں پستے ہوئے گزرتی گھڑیاں گھنٹہ بن کر پیچھے رہ گئیں اور وہ سوچتا رہا کہ ۔۔۔۔ کہ وہ اور کوئی کام ڈھونڈ لے گا۔ آخر زمین پر ہزاروں کام ہیں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ۔
آسماں ایک بار پھر بادلوں نے کندھے سے کندھا گھسایا۔ وہ ایک دوسرے میں گھس گئے اور ایک دوسرے کو نچوڑلیا۔ ابھی تقریبا! دوپہر ہی تھی۔ ہوا ابھی تیز تھی۔ انپورنا سے گرم کھانے کی خوشبو آرہی تھی، جسے سُونگھ کر اس نے اپنے آپ کو اس کتّے کی طرح محسوس کیا جو بنگلہ کے سامنے کھڑے ہوکرپنجوں سے زمین کھرچنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔۔ اس نے پاؤں پانی میں ہلائے جلائے ،لیکن اس کے پیر ہلے نہیں۔ مسلسل پانی میں رہنے کے سبب اس کے پاؤں اکڑ گئے تھے اور پورے بدن میں سردی کا کرنٹ، اس پر اس کے جسم نے کانپنا شروع کیا؛ بالکل چھپکلی کی طرح۔
اب وہ کیا کرے ؟ اردگرد تن ڈھانپنے اور گرم رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کے دانت بجنے لگے ، یہاں تک کہ ہونٹ بند رکھنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس وقت اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے مرحوم باپ کو گالی دی۔لیکن آواز اس کے گلے سے نہیں نکلی۔ گالی اس کے من میں کمپوز ہوکر حلق تک آئی۔۔۔۔ بجتے دانتوں اور کانپتے ہونٹوں کے زلزلہ میں قربان ہوکر، گری اور لوٹنیاں کھا کراس کے ضمیر کی تہہ میں چلی گئی۔۔۔ زخمی گالی وہاں ہی پڑی رہی !
” تو کیا میں اس طرح مرجاؤں گا ؟”
اس نے جتنا دماغ تیز چلانے کی کوشش کی ، خیال کی قوت کو اس نے اتنا ہی کمزور اورسرد پایا۔ وہ سردی کے مارے پیپل کے پتے کی طرح کانپ رہاتھا۔ موت۔۔۔۔ موت۔۔۔ اس کی موت ! اس سے آگے وہ کچھ بھی سوچ نہ سکا ۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کا دماغ ماؤف ہورہا ہے ۔
اس نے آہستہ آہستہ اپنے آپ کو گڑھے سے باہر کھینچا اور زمین پر گھسٹتا ہواکچرے کے ڈھیر تک پہنچا۔جب تک اس کے ہوش بالکل گم نہ ہو جائیں، وہ چوہے کی طرح اس ڈھیر میں گھس گیا۔ اس کے بدن کے چاروں طرف کچرہ تھا۔ بھیگا ہوا لیکن گرم۔اس نے صرف سانس لینے کے لیے جگہ چھوڑی۔ اس نے جسم کو گرم ہوتا ہوا محسوس کیا۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ بے ہوش ہوگیا۔
انپورنا کے گرم کھانے کی خوشبو ختم ہوتی چلی گئی ۔ پارسی کنویں پر پھول چڑھاتے رہے ۔ کیڑے مکوڑے کچرے کے ڈھیر میں گھومتے رہے ، اپنے کھانے کی تلاش میں۔۔۔اور۔۔۔ یونیورسٹی ٹاورکے وال کلاک کے کانٹوں نے گھوم گھوم کربالآخر دن کا خاتمہ کرلیا۔
درد اور خارش کے سبب جیب کترے کی آنکھ کھل گئی۔اس نے سمجھا، وہ شایدنرک میں ہے ۔نرک، جس کی تصویریں اس نے بچپن میں اپنے گھر میں ماں کو لگاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ چیخنے کو تھا کہ اسے یاد آیا کہ اس کے جسم پر کچرے کے ڈھیر والے کیڑے مکوڑے رینگ رہے ہیں اور وہ ننگا ہے ۔ اس نے اپنے چہرے سے کچرے کو ہٹایا۔۔۔۔
روشنیاں !
رات !!
تاریک رات !!!
میدان خالی تھا۔ گھاس سے ٹڈیوں کی مسلسل آوازیں آرہی تھیں۔ بارش تھم چکی تھی۔ جیب کترے کو خوف نے گھیرلیا کہ کہیں کوئی سانپ، بچھو۔۔۔ اس نے فوراً ڈھیر سے نکل کرگڑھے کے پانی میں اپنا جسم دھویا اور ہاتھوں سے پانی پونچھ کررات کی تاریکی کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے سامنے سوال یہ تھا کہ وہ کہاں جائے اور کیسے جائے ؟ وہ آہستہ آہستہ بڑی سڑک کے کنارے کھڑے مجسمہ کے کٹہڑے کے باہرپہنچ کر، کبڑا ہوکر کوئی راہ ڈھونڈنے لگا۔ دن کی طرح ابھی بھی آمدورفت جاری تھی۔ اسے لگا کہ یہ لوگ بس آتے اور جاتے رہیں گے ۔ شاید لاچارگی کے ہاتھوں کچھ سوئیں گے اور سوئیں گے تو دیگرکچھ جاگ اٹھیں گے ۔ یہ راستے ۔ شاید کبھی خالی نہ ہوں گے ۔ دن والی موٹریں ابھی بھی چل رہی تھیں ۔ روشنیاں جلاکر اور بالم بن کر۔گزرنے والوں میں سے کسی نے بھی اس کی طرف نہیں دیکھا۔ اندھیرے میں اس کی عریانی دیکھنے کا شوق کس کو تھا ؟
اچانک ایک گاڑی اس کے نزدیک تھوڑے فاصلہ تک روشنی بکھیرتی ٹھہرگئی۔ فُل سوٹ میں ایک شخص کار سے باہر نکلا۔سٹیرنگ پر کوئی عورت تھی۔ کھڑکی سے اس کا چہرہ باہر نکلا اور باہر والا اس کی طرف جھکا۔ چومنے کے بعد رخصت۔ ابھی وہ شخص قدم بڑھا ہی رہا تھا کہ جیب کترے کی تمام تر اذّیت ایک عجیب سُر میں چلا اُٹھی:
” صاحب ! جسم ڈھانپنے کے لیے کچھ مل جاتا تو۔۔۔ بالکل ننگا ہوں۔کوئی کپڑے کا ٹکڑا وغیرہ۔۔۔ بھگوان کے نام پر۔ بھگوان ۔۔۔۔” جانے والا شخص ٹھہر گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑکر جیب کترے کو بھکاری سمجھ کر دیکھنے لگا اور پھر وہ کار کی طرف لوٹا۔ وہ ابھی تک کھڑکی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
” ڈسٹر !”
“اس سے کام چل جائے گا ؟” وہ ڈسٹر لے کر ننگے بھکاری کے قریب پہنچا۔
جیب کترے کے لرزتے ہاتھوں میں حرکت ہوئی اور دوسرے لمحے ۔۔۔۔
فُل سوٹ والا شخص اپنی دھن میں اس عورت کو ہاتھ ہلاتا الوداع کہتا چلاگیا۔ دونوں کے درمیان رہ گئی تاریکی نے ان کے ہاتھوں کو اکی دوسرے کے ہاتھوں سے اوجھل کردیا۔ کار کی آواز ختم ہوجانے کے بعد جیب کترا بھی اپنے ہوش و حواس میں آگیا ۔ اس کے ہاتھوں میں کار صاف کرنے والا گریزاور تیل میں میلا کپڑا تھا۔ کافی بڑا،کہ جو آسانی سے کمر سے باندھا جا سکے اور اس کپڑے کے نیچے تھا اس بھلمانس کا۔۔۔
بٹوا !
ہائے ! یہ اس نے کیا کردیا۔ وہ بھی بغیر کسی ارادے کے ! جس گناہ کی سزا سے ، جس سزا کی ذلّت سے ، اذیّت کی پِیڑ سے ، اُس نے اسے نجات دلائی ؛ اسی کی ہی جیب مار لی۔ جیسے کرشن کے ساتھ دروپدی نے دھوکہ کیا ہو۔
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ ہوگیا ہے ۔اس نے خود نہیں کیا ہے ! وہ ایکدم کمر سے کپڑا باندھ کرسٹیشن کی طرف بڑھا، اس بھل مانس کی تلاش میں ۔لیکن وہ کرشن کا اوتار جا چکا تھا۔ سٹیشن کے قریب فوٹ پاتھ پر، بس سٹاپ کے شیڈ میں کھڑا ہوکر ،جیب کترا مایوس ہوکر کچھ گھڑیوں کے لیے سوچنے لگا:
“یہ میں نہیں ہوں۔ مجھے تو ننگا کیا گیا تھا۔پورادن پانی کے گڑھے میں رکھاگیا۔ سردی سے بچنے کے لیے کچرے کے ڈھیر نے پناہ دی تھی۔ اذیت اور جہنمی بدبُو۔۔۔ اور بخار۔۔۔”
“نہیں، نہیں ۔یہ میں نے نہیں کیا ہے ۔میں نے نہیں ۔”
” تو پھر کس نے کیا ؟” اس کے ضمیر نے سوال کیا۔
” چپ رہو،یہ میرا باپ تھا۔ باپ !”
اس نے بٹوے کا مال دیکھنے کے لیے کھمبے کی آڑ لے کربٹوے کو تھوڑا کھول کر دیکھا۔ عین اس وقت اس کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی پڑی۔
” پولیس مین !”
سٹیشن کی طرف جانا مطلب سوفیصد پھنسنا۔اس لیے اُس نے مرین ڈرائیو کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ ایک ہاتھ کمر میں اور دوسرا بٹوے میں۔وہ دبلا پتلا اور پولیس والاموٹا اور بھاری۔۔۔ پہنچنا مشکل ! جیب کترے کے خالی پیٹ میں بچے کھچے پانی میں اُتھل پُتھل مچاتی سپاہی والی سیٹی گونج اٹھی۔ اب وہ دو منٹوں میں پھنس جائے گا اور سچ مچ ۔۔۔۔ سامنے والی گلی سے ایک طاقتورپٹھان چوکیدار نکل آیاتھا۔
ریلوے لائن پر لگی فولادی سلاخوں کی ایک سلاخ ٹوٹی ہوئی تھی۔ جیب کترا اس سے اندر گھس گیا۔ سپاہی اور پٹھان بھی پیچھے پیچھے پہنچ گئے ۔لیکن وہ دونوں تھے موٹے بدن والے ! وہ بھی آخرکار باڑھ پارکر آئے ۔ سامنے سے ٹرین آرہی تھی۔ اس کی اگلی روشنیوں میں انہیں نظر آئیں جیب کترے کی پھٹی ہوئی آنکھیں۔ اسی وقت ایک اور گاڑی دوسری طرف سے آئی،جس نے ان دونوں کو اور کچھ دیکھنے سے روک دیا۔گاڑی چلی گئی تھی، لائن خالی تھی۔
“یقیناً کتّا مرگیا ہوگا۔” اتنا کہہ کر پٹھان لائن کی طرف بڑھ گیا۔
” حوالدار !”
” لالا جی ! لاش ملی ؟”
” نہیں ۔ مرا نہیں۔”
“تو پکڑو اسے ۔ ”
” یہ لو۔۔۔۔”
” کہاں ہے ؟”
سپاہی نے ٹارچ جلائی۔
” یہ ۔۔۔ اس کی لنگوٹی !” گریز اور تیل آلودہ کپڑے کو پٹھان نے اس طرح ہاتھ میں پکڑا تھا کہ جیسے کوئی ریشمی رومال پکڑا ہو۔
” بھوت کا بچہ ننگا بھاگ گیا !”
پٹھان نے کپڑے کو ریلوے لائن پر پھینکا۔سپاہی نے اس پر ٹارچ کی روشنی میں تھوکتے ہوئے ، غصہ میں آکراپنی مونچھ کا بال اکھاڑلیا۔ سگنل کی سرخ بتیوں کی روشنی میں گریز اور تیل میں آلودہ ڈسٹر پھڑپھڑایا اور اوپرننگے سیاہ آسمان میں ابھرآیا جوان دبِ اکبر آنکھیں پٹ پٹاکر اور قلانچیں بھرکر نیچے جاتے وردی پوش پٹھان اور پولیس والے پر پھبتیاں کس رہا تھا۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *