Home » پوھوزانت » سری لنکا میں صحافت ۔۔۔ سلمیٰ اعوان

سری لنکا میں صحافت ۔۔۔ سلمیٰ اعوان

ناشتے کے فوراً بعد پہلا کام تو مسلم لیڈیز کالج جانا تھا۔واقعی نہ جاتے تو ایک بہت اچھا ادارہ دیکھنے سے محروم رہ جاتے۔متاثر کرنے والی پہلی چیز تو عمارت کی شان تھی۔ایک رفاعی ادارہ ہو اور ایسی شان و شوکت والا ہو۔تعجب والی بات تو تھی۔ پانچ منزلہ عمارت کا نویلکا پن اوراس کے سرسبز کھیل کے میدان فوراً توجہ کھینچتے تھے۔ ہم خاموشی سے اندر داخل ہوئیں۔گیٹ پر کھڑے سیکورٹی کے آدمیوں نے پاکستان کا جان کر محبت بھری مسکراہٹ سے استقبال کیا اور آفس کا راستہ دکھایا۔مگر وہاں جانے سے قبل برآمدوں میں ٹنگے ہم نے لمبے چوڑے بورڈوں پر بچیوں کی سال بھر کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنا ضروری سمجھا۔
سفید یونیفارم میں چاق و چوبند لڑکیاں ڈرم بجا رہی ہیں۔مارچ پاسٹ کرتی ہیں۔ہر نوع کے کھیلوں میں سرگرمی سے حصّہ لینے کے منظر۔مختلف کلبوں میں بچیوں کی پرفارمنس، لیب میں تجربات کرتی ،کمپیوٹر پر کام کرتی۔ماڈرن تعلیم کا کونسا ایسا شعبہ تھا جس کا اطلاق یہاں نہ کیا گیا ہو۔
پرنسپل بہت ملنسا ر اور سٹاف بین المذاہبی اور بین اثقافتی رویوں کی ایک دلکش تصویر تھا۔
ساڑھیوں میں ننگے سر،کٹے بالوں والی ٹیچرز۔ہم نے سائنس کی تجربہ گاہیں دیکھیں۔چائے پی اور سر رزاق فرید اور ان کے قابل فخر ساتھیوں کے بارے مزید سُنا۔
اجازت چاہی اور باہر نکل آئیں۔
رات جب اپنی نیک دل ہمسائی کے ہاں سے ڈنر کرکے آئے تو ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی لڑکیوں سے ہیلو ہائے ہوئی۔ہمارے کل رات کے جانے کا سُن کر انہوں نے پیٹا کیلئے کہا تھا کہ کچھ ضروری خریداری نہیں کرنی۔
آپ لوگوں نے ہیرے ،موتی،پتھرنہیں خریدے۔مہرالنساء نے ہی تھوڑی سی آبرو رکھ لی۔
اور گرم مصالحے؟ماریہ نے پوچھا تھا۔
’’ارے وہ تو آپ کے آباؤاجداد بھی لے کر جاتے تھے اور فدا تھے ان کی کوالٹی پر۔ہاں بھئی اب اگر اُن پرپھر بھی دل نہ مانے تو پھر ہربل دوائیں ہر بیماری کا شافی علاج۔وہ تو نری سوغات ہیں۔بڑی سکھی رہیں گی۔لے جائیں انہیں۔
ماریہ مصر تھی۔ماریہ قدیم تہذیب کے مرکزی شہر سگریا کی رہنے والی۔یہاں کولمبو یونیورسٹی میں فزکس پڑھاتی تھی۔ سنہالی عیسائی تھی۔گذشتہ تین دنوں سے مسلسل ہر رات ملاقات ہورہی تھی۔بڑی من موہنی سی،کھلی ڈلی۔مختصر سی ملاقاتوں میں ہی اُس شعر کی تفسیر بن گئی تھی کہ آنکھوں میں بس گئے دل میں سما گئے۔
اب ہم یہاں بمبالہ پٹیایہ میں کھڑے تھے۔پہلے سوچا کہ کوئی اور موڈ تو نہیں رہ گیا جس کی ہم نے ٹرائیاں نہ ماریں۔ بسوں ،ٹرین ،رکشے کے مزے توچکھ لیے ہیں۔اب ٹیکسی رہ گئی تھی۔پھر خود سے کہا ۔اب دو تو ہیں پس رکشا ہی پکڑا جس نے ہمیں خان کلاک ٹاور پر اُتارا۔یہ پیٹا مارکیٹ کا مشہور لینڈ مارک ہے جسے ممبئی کی فریم جی خان پارسی فیملی کے بیٹوں نے اپنے باپ کی یاد میں بنوایا تھا۔
ہم کولمبو کے روایتی اور مصروف ترین بازاروں کی دنیا میں داخل ہوگئی تھیں۔ایک بازار اگر برتن بھانڈوں کا تھا تو دوسرا کپڑوں کا ،تیسرا سونے اور پتھروں کا۔ چوتھا الیکڑک سامان اور فوٹوگرافی کا۔ بازار در بازاروں کے سلسلے جن میں دستی ریڑھیاں، رکشے،موٹر سائیکل،سائیکل گاڑیاں سب گزر رہے تھے۔
اب مصالحوں کے بازار میں کھڑی سوچتی تھی کہ مجھے تو لینا ایک نہ دینا دو۔چھوٹی بڑی الائچی،دارچینی،لونگیں اب اگر ان کا بوجھ اٹھاؤں تو مجھے پاکستانی بھاؤ کا کیا پتہ کہ مدتیں ہوئی میں نے کبھی یہ چیزیں خریدی نہیں۔میاں جانے یا بیٹی جانے۔جب سے وہ اپنے گھر کی ہوئی۔ بہو نے ذمہ داری سنبھال لی۔اب ہاتھ لٹکائے اِس اژدہام میں پھنسی ہوئی مہرانساء کی پھرتیاں دیکھتی تھیں کہ جس کا جی چاہتا تھا وہ چیزوں کا جہاز بھرلے۔
ڈچ میوزیم کو دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔مگر جب باہر نکلے تو ایک ساؤ تھ افریقن جوڑا ملاجس نے ہم سے میوزیم کا پوچھا ۔ہمیں تو خود معلوم نہیں تھاہم نے کیا راہبری کرنی تھی؟معذرت کرتے ہوئے یونہی خیال آیا کہ یار نتھی ہوجائیں ان کے ساتھ۔ چلو کچھ دیکھ ہی لیں گے۔پوچھا کہ ساتھ چلیں تو ناگوار تو نہیں ہوگا۔لو وہاں تو باچھیں کھل گئیں۔اب رکشا لیا۔اُس نے چاروں کو اُس میں سہولت سے ایڈجسٹ کرلیا۔تاہم دھوپ چمک رہی تھی اور ٹریفک کا رش بے بہا تھا۔سانس رکتی تھی اور رکشا جُو ں کی رفتار سے چلتا تھا۔
باہر کی دنیا رش اور نفسا نفسی کی جس لپیٹ میں تھی۔اندر اتنا ہی پرسکون ٹھنڈا اور
خاموش تھا۔ٹکٹ مہنگا تھا۔تاہم عمارت ،سرسبز لان اور اُسمیں بنا کنواں سب مزے کے تھے۔اندر کمروں میں جزیرے پر ڈچ دور کے حکمرانوں کے سامان تھے۔فرنیچر،کتابیں،کراکری،کرسیاں،میزیں،نقشے،دیواروں پر ٹنگی تصویریں اور پوٹریٹ۔
مہرانساء اِس سب پر کچھ اتنی زیادہ خوش نہیں تھی کہ وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔یہاں ہے کیا؟میں خاموشی سے اُسے بولتے، سنتے اور چیزوں پر نظریں جمائے سوچتی رہی کہ یہ کیسی احمق ہے؟بھرے میلے میں چند لمحوں کیلئے رُک کر گزرے کل کے وقت کی ریت پر چھوڑے نشانوں کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچنا ،کچھ غور کرناکتنا دلچسپ اور مزے کا کام ہے جو یہ کرنا ہی نہیں چاہتی۔
کمرے میں دھری واحد کرسی پر مجھے مٹی کی ہلکی سی تہہ نظرآئی تھی جیسے صفائی اوپرے اوپرے انداز سے کی گئی ہو۔میوزیم کے کمروں میں دیوراوں پر دو پوٹریٹ مقامی لوگوں اور ڈچ سپاہیوں کے درمیان جنگ و جدل کے تھے۔لاشیں بکھری ہوئی،ہیٹ،تلواریں ،دھویں کے بادل،واہ مداری تماشے کرتے تھے۔صدیوں سے یہی تماشے ہوتے چلے آئے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے۔اور صرف باقی ایک نام نے رہ جانا ہے۔
باہر نکل کر افریقن جوڑے سے مسکراہٹوں کے تبادلے اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے رخصت چاہی۔میں سری لنکا پریس انسٹی ٹیوٹ جانا چاہتی تھی جو کہیں کولمبو 6میں فورز روڈپر تھا۔ابھی کِسی رکشے کو پکڑنے کی کوشش میں ہپوہان ہورہے تھے کہ مصیبت نے دھر لیا۔سڑک کے پار کِسی خالی رکشے کو اشارہ کرتے ہوئے مہرانساء نے آگے اور میں نے پیچھے سے سڑک پار کرنے کی کوشش کی۔
پل جھپکنے میں ہی مہرانساء سڑک پر گری پڑی تھی اور بریکوں کی چرچراہٹوں کا شور سارے شہر میں گونج رہا تھا۔جس گاڑی کے سامنے گری اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے مرد نے برق رفتاری سے باہر نکل کر اُسے اٹھایا۔پاکستانی جان کر سیکنڈوں میں پچھلی سیٹ پر اُسے اور مجھے بٹھایا اور ہاتھ سے رُکی ٹریفک کو سب ٹھیک کا ہے سگنل دیتے ہوئے گاڑی چلا دی۔
بڑی ڈرامائی سی صورت پیدا ہوئی تھی۔یہ مقام شکر تھا کہ مہرانساء ٹھیک تھی۔اس کی فیشنی جوتی پھسل گئی تھی۔نوجوان پاکستانی سفارت خانے میں سیکنڈ سکریٹری تھا۔مجھے ہنسی آئی کہ پردیس میں درد ملا تو دوا بھی اپنے نے دی۔
گاڑی بگٹٹ بھاگتی ایمبیسی آگئی۔سفیر صاحب پاکستان گئے ہوئے تھے۔فرسٹ سکریٹری اپنی بیوی اور پاکستان سے سیر سپاٹے کیلئے آنے والی دو عدد سالیوں کے ساتھ کینڈی تھے۔مستعد نوجوان نے چائے منگوائی ۔مزے دار بسکٹ ساتھ تھے۔میرے بارے میں جان کر بولا اچھا تو آپ اسی لیے سری لنکا پریس انسٹیوٹSLPI جانا چاہتی تھی۔
مقصد تھوڑی سی واقفیت اور کچھ حالات سے آگاہی کا تھا کہ میں رائٹرز گلڈ کے بارے میں جاننا چاہتی تھی کہ عصر حاضر کے ادیبوں سے ملاقات کا کچھ سامان ہوجائے۔
انورزاہد بڑا مستعد ،ہر سطح پر ملک کی نمائندگی کا خواہاں اور فعال قسم کا سفارت کار تھا۔پریس سے اُس کے تعلقات ٹھیک ٹھاک لگتے تھے۔انگریزی کے اخبارات” سنڈے لیڈر” ،تامل اخبارThinakkural ، اخباروں کے پتے لکھوائے ،اوقات بتائے کہ کب اُن سے ملاقات ہوسکتی ہے۔سنڈے آئی لینڈ کے چیف ایڈیٹر مانک ڈی سلوا کا فون نمبر لکھوایا۔اور جب میں نے سری لنکا میں صحافت اور صحافیوں پر اُس کی رائے لینی چاہی۔اُس کے ہاں کہیں کوئی ابہام یا رائے میں پس و پیش نہیں تھا۔وہ بڑا واضح تھا۔
سری لنکا میں صحافت ایک خطرناک رسکی کام ہے۔اٹھارہ انیس سال سے تاملوں اور حکومت میں جاری جنگ میں میڈیا ایک اہم اور متاثر کردار کے طور پر بہت نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے کہ جہاں انہوں نے حکومت ،فوج یا بیورو کریسی کے خلاف لکھا یا زوردار آواز بلند کی۔وہیں انہیں ٹھکانے لگا دیا گیا۔
صحافیوں کا ایک طبقہ تاملوں کے ساتھ ڈائیلاگ چاہتا ہے مگر فوج اس کے حق میں نہیں۔ان کے پاس اس ضمن میں دلائل ہیں۔سہولتوں کے تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے۔ ’’یہ تو بالکل پاکستانی صورت حال ہے۔واقعی اگر ہم نے ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی میدان میں کام کیا ہوتا۔مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کو موجودہ تعلیمی نظام سے ہم آہنگ کیا ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا جوہورہا ہے۔
پاکستان کی طرح لفافہ سسٹم ،مراعات اور نوازشات کی صورت کیا ہے۔میرے پوچھنے پر پتہ چلا سب چل رہا ہے۔صدور،وزیراعظموں اور وزیروں کے ساتھ ہنی مون کے سلسلوں کا زور و شور۔ان کی انتخابی مہمات میں سپورٹ بعد میں تعلقات کی خرابی اور قتل و اغوا اور کہیں انعامات کی بارش میں نہلائی سب قباحتیں یہاں عروج پر ہیں۔
دو گھنٹے کی اس نشست میں اس نے مجھے بھی کرنے کو ایک کام دے دیا۔میں نے کہا بھی کہ میں نہتی عورت نہ میرے پاس کوئی سفارش نہ تعلقات۔مگروہ مصر تھا کہ اس نے بہتری کوشش کرڈالی ہے ۔بس تھوڑی سی کامیابی اُسے ضرور حاصل ہوئی ہے۔ مگر وہ مزید تعاون چاہتا ہے۔
’’ارے یہ لوگ دیوانے ہیں ڈراموں کے ۔ہم نے ڈراموں کی دو سیریل جو یہاں دکھائی ہیں۔انہوں نے ہمیں غیرمعمولی پذیرائی دی ہے۔ہمیں اِس شعبے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انور زاہد ملّا کی ڈور مسیت تک۔بشری انصاری مجھے بڑی بہن کا سا مان دیتی ہے ۔اُسی کو ممکن حد تک قائل کروں گی۔باقی وعدہ نہیں۔
کوئی چار بجے ایرپورٹ کیلئے نکلے۔
ٹی وی لاؤنج اس وقت خالی تھا۔ایک خیال،ایک احساس نے اندر جھانک کر کہا تھا۔یہ چمن یونہی رہے گا اور ہم سب اپنی اپنی بولیاں بولتے اڑ جائیں گے۔کتنی صداقت، کتنی حقیقت ۔آباد رہو،شاد رہو۔امن کا گہوارہ بنو۔
راستے میں رک کر انناس لیا۔کٹوایا۔لفافے میں ڈلوایا کہ چلو انتظار کے لمحوں میں مُنہ چلتا رہے گا۔
سامان چیکنگ کے مرحلے میں اِس سوال کی تو توقع ہی نہیں تھی جو ہوا۔
’’آپ نے کوئی چیز نہیں خریدی۔چائے نہیں،جم نہیں،گولڈ کی کوئی چیز نہیں۔کوئی سوونئیر نہیں ،کوئی لکڑی کا مجسمہ کندہ کاری سے سجا،بانس سے بنا کوئی تحفہ،کوئی ڈانسنگ ماسک،Brassورک کی کوئی سوغات۔
مجھے محسوس ہوا تھا جیسے وہ لڑکا صدمے کی سی کیفیت میں ہو۔میں نے اس کے دُکھ کو سمجھا۔اس کا اتنا خوبصورت ملک اتنی سوغاتوں والا۔اور میرا چھوٹا سا اٹیچی کیس کسی فقیر فقرے کی کٹیاکی طرح خالی خالی،اجڑا پجڑا سا۔
میں نے انتہائی پھرتی سے اپنے چار جوڑے کپڑوں کے درمیان رکھی کتابوں میں سے پہلی کتاب اٹھائی ۔اُسے دکھائی اور بولی۔
’’اسے دیکھو یہ تمہارے بہت بڑے لکھنے والے اشوک فیری Ferry کا خوبصورت ناول ہے۔The good little Ceylonese girl ۔میں نے دوسری کتاب اٹھائی ۔اس کے چہرے کے سامنے کی۔یہ The moon in the waterتھی۔پھر مزید The Prisoner of Paradise ،اورTread Softy۔‘‘
نچلی تہوں سے Insight Sri Lankaجیسی بھاری بھرکم اور Sri Lanka بھی ہاتھ میں پکڑ کر لہرا دیں۔
’’بولو۔کہو۔ابھی بھی شکایت ہے کہ میں نے کچھ نہیں خریدا۔میں تو اپنے ساتھ تمہارا سارا ملک لے کر جارہی ہوں۔لڑکا مسکرایا ۔میرے ہاتھوں کو تھاما اور بولا معاف کردیجیے گا۔‘‘
’’جیتے رہو۔تم اور تمہارا ملک آباد رہے۔شاد رہے۔‘‘امین

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *