وہ سنج راہوں
دھند لکے منظروں میں
مرے لبوں سے الفاظ یہ پھسلتے ہیں
کہ
’’ مروارد!
کہاں ہو تم‘‘
مجھے لا گے کہ جیسے
تیرے آنسو،
مری آنکھوں کے رستے،
دل پہ برستے بارشوں میں
ساز کی آواز سے نظر آئیں
خلاؤں میں مت گھور
مجھے مت سوچ کہ،
شال کیچ کے آمین جیسا میٹھاہے
وہاں جو بیج بوئے ہیں
یہاں کونپل تک پہنچی ہے
یہ میٹھی،
کٹھّی میٹھی توت تو
مجھے دہقاں کی
سریلی بانسری سے
نکلے،
تاپ جیسی لاگے،
پتہ ہے تم جب
وہاں، اپنی آنکھوں کے
کناروں سے آبِ حیات کے سے
قطروں کو
اپنی مہرواں آنچل میں
جذب کرتی ہو
تو،
اُن قطروں کی نمی سے
شال میں،
برف پڑتی ہے
اوجاناں!
برف پڑتی ہے
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...