Home » شیرانی رلی » نظم ۔۔۔ ساحر لدھیانوی

نظم ۔۔۔ ساحر لدھیانوی

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی
تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ رنج و غم کی سیاہی جو دل پہ چھائی ہے
تیری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
مگر یہ ہو نہ سکا
مگر یہ ہو نہ سکا، اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں، تیرا غم تیری جستجو بھی نہیں۔
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اِسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
نہ کوئی راہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ
مچل رہی ہے اندھیروں میں زندگی اپنی
انہی اندھیروں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں میرے ہم نفس
مگر یوں ہی
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم ہو کر
تیرے جمال کی رعناؤں میں کھو رہتا
تیرا گداز بدن تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین فسانوں میں محو رہتا
پکارتیں جب مجھے تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھری برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا
مگر یہ نہ ہو سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہ گزاروں سے
مہیب سائے میری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پر ہول خار زاروں سے
نہ کوئی جادہ و منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں میری ہم نفس مگر یونہی
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *