لوگ جاتے ہیں جہاں سے وہ جہاں باقی ہے
جب مکیں ہی نہ رہے کیسے مکاں باقی ہے
یہ جو منظر ہیں دھواں اور بھی دھندلائیں گے
دھند باقی ہے ابھی اور دھواں باقی ہے
ایک اک کر کے یہ دنیائیں فنا ہوں گی مگر
جب تلک آسماں باقی ہے سماں باقی ہے
موت بازار میں نکلی ہے تماشا کرنے
زندگی کے لئے سرکس کا کنواں باقی ہے
چومنے کے لئے میڈل ہے سرہانے ، ماں کے
کیا جو حیدر نہ رہا! اس کا نشاں باقی ہے
گم گئے مجھ سے زمیں مجھ سے فلک مجھ سے خدا
تیرے گم ہونے تلک میرا گماں باقی ہے
اس قدر سرد رویوّں نے جمایا اسود
بات کرنے کی حرارت بھی کہاں باقی ہے