نئے پیکر میں ڈھلتی جا رہی ہوں
بدن سے اب نکلتی جا رہی ہوں
شفق اوڑھے ہوئے بدلی پہ بیٹھے
فضا ساری بدلتی جا رہی ہوں
مگر اس دکھ سے ہوگا کون واقف
کہ الٹے پاؤں چلتی جا رہی ہوں
کسی سوکھی ہوئی لکڑی کی صورت
بہت تیزی سے جلتی جا رہی ہوں
کوئی تو بھید میں نے پا لیا ہے
جو مٹی تن پہ ملتی جا رہی ہوں
بگولے رقص میں ہیں، وقت ساکن
میں کس وحشت سے کھَلتی جا رہی ہوں
کہیں موجود ہے لاوا بدن میں
جو یوں قندیل گلتی جا رہی ہوں