Home » شیرانی رلی » نظم ۔۔۔ اِسحاق خاموش۔ کراچی

نظم ۔۔۔ اِسحاق خاموش۔ کراچی

’’ پری دروشم ‘‘ وہ ایسی ہے
شباہت پُھول جیسی ہے

بھڑکتی خواہشوں میں اب
سمندرکی روانی ہے

ہَوا نے بھیک مانگی ہے
فلک نے آگ برسی ہے

فصیلِ جاں شِکستہ ہے
غموں نے دُھوپ بھر لی ہے

رگڑ کھائی ہے پتھر سے
تبھی یہ چاند اُجلی ہے

نتیجے سے تُمہی واقف
کہانی تُم نے گھڑ لی ہے

چلو چلتے ہیں واپس اب
بچاری ماں بھی بُھوکی ہے

نہیں اُٹھتے اِسحاقؔ اب ہاتھ
دُعا جو اُس نے سُن لی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *