Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ فریحہ نقوی

غزل ۔۔۔ فریحہ نقوی

کیوں دیا تھا؟ بتا! میری ویرانیوں میں سہارا مجھے؟
میں اداسی کے ملبے تلے دفن تھی،کیوں نکالا مجھے؟

ایسی نازک تھی گھر کے پرندوں سے بھی خوف کھاتی تھی میں
یہ کہاں،کن درندروں کے جنگل میں پھینکا ہے تنہا مجھے؟

خواب ٹوٹے تھے اور کرچیاں اب بھی آنکھوں میں پیوست ہیں
اب یہ کس منہ سے پھر خواب کی انجمن نے پکارا مجھے

یار تھا تو کبھی، تیری نظمیں ہمیشہ سلامت رہیں
داغ دینے کو پھر یہ ردا چاہیے تو بتانا مجھے

بس یونہی رنج کا ابر شعروں کی بارش میں ڈھلتا گیا
“وارثان سخن!” کوئی تمغہ نہیں ہے کمانا مجھے

کوئی ایسا طریقہ بتا تیری آواز کو چوم لوں
اف یہ تیرا “فریحے! مری جان” کہہ کر بلانا مجھے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *