Home » پوھوزانت » دمشق کی شاعرہ مونا عمیدی ۔۔۔ سلمیٰ اعوان

دمشق کی شاعرہ مونا عمیدی ۔۔۔ سلمیٰ اعوان

دمشق میں چم chamپیلس ہوٹل کے بالمقابل میسلونMaysalounبک شاپ پر دھری مونا عمیدی کی نظموں کے مجموعے میں اِس نظم نے پل بھر میں ہی گرفت میں لے لیا تھا۔
آہ بغداد کے سٹور بند ہیں تریپولی کی گلیاں ویران ہیں
غزہ پر بمباری ہے فلوجہ شعلوں میں نہا رہا ہے
دنیا سو رہی ہے اور عرب دنیا
بحث میں اُلجھی ہوئی ہے کہ ورلڈ کپ میچوں میں کون جیتا ہے؟
رہے نام اللہ کا
یہ چونکا دینے والی نظم تھی۔پانچ چھ مزید نظموں کے مطالعہ نے بتایا کہ شاعرہ نے عرب بہار سے بہت سی امیدیں وابستہ کیں۔فکری انقلاب مشرق وسطیٰ کے درودیوار پر دستک دیتا محسوس کیا۔مگر آنے والے وقتوں میں مایوسی ہوئی اور دلی جذبات شعروں میں ڈھلنے لگے۔سیلز مین نے صاحب کتاب سے مزید تعارف کی غرض سے ایک اور خوبصورت کتاب سیرین فوک ٹیلزہاتھ میں پکڑا دی۔دیدہ زیب طباعت و کتابت اور ٹائیٹل نے توجہ فوراً کھینچی۔وہیں بٹھا کر اندر دیکھنے کی دعوت بھی ملنے لگی تھی۔صفحات الٹنے پلٹنے اور کہیں کہیں پڑھنے سے احساس ہوا کہ بلادا لشام کے مختلف علاقوں کی یہ کہانیاں ایک انتہائی شاندار پیش کش تھی۔گرفت میں لینے والی عام فہم زبان جو حقیقت اور طلسم ،معلوم اور نامعلوم کے درمیان سفر کرتی تھیں۔مصنفہ شاعرہ بھی کمال درجے کی تھی۔دونوں کتابیں خرید لیں۔مسیلون بک شاپ کے مالک نے مصنفہ کا فون نمبر اور پتہ بھی کاغذ پر لکھ دیا تھا۔یہ 2008 تھا۔شام پرامن تھااور عام آدمی کب جانتا تھا کہ فضاؤں میں کہیں اس کی بربادیوں کے چرچے گردش میں ہیں۔
کہانیوں نے مجھے سحر میں جکڑ لیا تھا۔یہ تعارف تھا اِس خوبصورت ملک کے ماضی کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے۔محسوس ہوا تھا جیسے میں عمیدی کی دادی سے بیٹھی کہانیاں سن رہی ہوں۔شام کے شہروں کے گھروں کے پرسکون ماحول میں شام کے مختلف شہروں کی روایتی زندگی کے سارے رنگ اِن کہانیوں میں اڑتے پھرتے تھے۔رات گئے نظمیں پڑھتی رہی۔اگلے دن الملک عبدالعزیز سٹریٹ پر واقع گھر پر ملاقات کے لیے پہنچ گئی۔
مونا عمیدی قدرے فربہی بدن کی سُرخ و سفید خاتون نے مجھے اپنے گھر کے دروازے پر خوش آمدید کہا تھا۔ امریکن ماں اور شامی باپ کے گھر پیدا ہونے والی یہ بچی 1962میں دمشق میں پیدا ہوئی۔انگریزی ادب میں گریجویشن اُس نے دمشق یونیورسٹی سے کیا۔اس کے ساتھ اس نے انگلش عربی ٹرانسلشن کا ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔آغاز میں اس نے بچوں کے لیے انگریزی کورسز مرتب کیے۔اور انگریزی زبان کیسے پڑھائی جائے پر نصابی کتب لکھیں۔بعدازاں عربی کہانیوں کا ترجمہ شروع کردیا۔
فوک کہانیوں کی ان سلسلہ وارکتابوں نے ایک دھوم مچادی۔عام شامی کیا پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے ملک کی ثقافت کے اِن خوبصورت رنگوں سے ناواقف تھے۔بہت پذیرائی ہوئی۔انگریزی میں شاعری بھی چونکا دینے والی تھی۔یہ جذبات و احساسات کا ایک جہاں کھولتی تھیں۔عراق سے متعلق نظمیں، لیبیا،مصر عرب دنیا کِس بے حسی کا شکار ہے۔بڑی طاقتوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں ،غلبے کی خواہشیں اور طاقت کے اندھے اظہار کیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے عام لوگوں کے خوابوں ،خواہشوں،امیدوں اور ان کے بستے رستے خوش و خرّم گھروں کو کھنڈر بنادیتے ہیں۔ وہ جو کہانیاں اور محبت کے گیت لکھتے اور گاتے لوگ کیسے میٹھے جذبات سے ناطہ توڑ کر خنجر ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں۔بے حد عام فہم لفظوں میں حقیقت کا چہرہ اور اپنے جذبات و احساسات کِس خوبی سے اپنے اندر سے نکال کر وہ باہر صفحے پر بچھا دیتی ہے۔
جب عراق خاک و خون میں نہارہا تھا کہیں کِسی وژن رکھنے والے نے کہا تھا۔عراق سے فراغت کے بعد شام کی باری ہے۔اور جب شام کی باری آئی۔میں نے جانا تھا عمیدی کہیں نہیں بھاگی۔دمشق میں رہی۔کیونکہ دمشق سے اُسے عشق ہے۔لینن گراڈ کے اُس بوڑھے موسیقار کی طرح جو سمجھتا تھا کہ وہ اگر شہر سے چلا گیا تو فصیلِ شہر گر جائے گی۔ اپنے خوبصورت ملک کے خوبصورت شہروں کو عراق کے شہروں کی طرح کھنڈر بنتے دیکھتی اور اپنے دکھوں کا لفظوں میں پرو کر اظہار کرتی رہی۔

دمشق خوبصورتیوں، پرانی اور نئی تہذیبوں کا شہر
آہ روشنیوں کا شہر مگر اب بجلی نہیں
چنبیلی جیسی کلیوں کا شہر، مگر اب پانی نہیں
محبتوں کا شہر، مگر دوستوں سے خالی
تاریخ سے بھرا مگر مستقبل سے خالی
روز مرہ زندگی کے اُلجھے پریشان کن لمحوں میں جب ہر شامی خاتون مونا عمیدی کی طرح صبح اٹھتی ہے، کافی بنانے کے لئیے کچن بھاگتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے پانی نہیں۔وہ ہمسائیوں کو آواز دیتی ہے اور سنتی ہے سارے شہر میں پانی نہیں ۔بجلی نہیں ،گیس نہیں ۔تب دکھ نس نس اوررگ رگ سے پھوٹتا ہے۔پھر وہ معصومیت سے خود سے سوال کرتی ہے۔ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔دمشق میں فیجاFijehچشمہ سلامت رہے۔اس نے تو شہریوں کا ہمیشہ خیال رکھا تھا۔پھر جیسے وہ ماضی کی یادوں سے حال میں آتی ہے۔
میں اسلامی کیلنڈر کے صفحات الٹتی ہوں۔جو میری کچن کی دیوار پر آویزاں ہے۔دو ماہ بعد رمضان ہے۔میرے بچپن کے رمضان کی خوبصورت یادیں اپنی پوری توانائی سے میری آنکھوں سے باہر جھانکی ہیں۔کیسے دل موہ لیتے منظر تھے۔افطاری کے کھانوں کی خوشبوئیں۔اذان کی پرسوز آواز ،تراویح کی رونقیں۔ٹپ ٹپ آنسو آنکھوں سے گرتے ہیں۔یہ رمضان کیسا ہوگا؟
صُبح کے منظر رلا دینے والے ہیں
دمشق کے لوگوں کو کس جرم کی پاداش میں
دمشق کے رمضان کی مقدس راتیں
مگر رنگین لالٹینوں اور قمقموں کے بغیر
خاموشیوں کو توڑتی ذکر کی آوازیں نہیں
دمشق میرے خوبصورت شہر
زندگی تو یہاں غروب ہوتے سورج جیسی ہوگئی ہے
جولوگوں کے دلوں میں ڈوبتی ہے
بڑی ہی آتشیں دھمکیوں کے سگنل دیتی
اداسی اور مایوسی کی لہریں پھیلاتی
گھپ اندھیروں میں گم ہوتی

یہ جولائی 2014ہے اور وہ لکھتی ہیں۔
میں شہر کا چکر لگانے کا ارادہ کرتی ہوں۔اپنی گلی کے ہمسائیوں کے دروازوں کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے ہوا کی چال میں لڑکھڑاہٹ اور بین کی سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔بند دروازوں پر دستک میں درد کی ایسی چیخ ہے کہ جیسے وہ اچانک کسی میٹھے مسحور کن خواب سے جاگی ہے اور اُسے یہ کربناک احساس ہوا ہے کہ اس کے مکین ہمیشہ کے لیے کہیں چلے گئے ہیں۔یہ درد مونا کے شعروں میں کیسے در آیا ہے۔
ہش ہش
قدموں کی چاپ دروازے کی طرف بڑھتی ہے
تالے کے سوراخ میں چابی گھومنے کی آواز
کہیں خوشی و مسرت کا در کھلنے کی امید
ہمیشہ رہنے والی تاریکی کو روشن کرنے کی آرزو
نہیں نہیں
اردگرد صرف تاریک سائے منڈلاتے ہیں
دروازے کے سوراخوں سے ہوا سیٹیاں بجاتی ہے
خاموش دروازہ بند رہتا ہے
اپنی افسردگی کو گلے سے لگائے
کھلنے کا خواب دیکھتے ہوئے
دمشق کے گلی کوچوں میں پھرتے ہوئے میرا دل دُکھ اور یاس سے بھر جاتا ہے۔ہر کوئی ملک سے بھاگ رہا ہے۔آپ باہر نکلتے ہیں خوبصورت گھروں کے دروازے بندہیں،کھڑکیاں بندہیں۔میں رک جاتی ہوں۔ دروازے جیسے مجھے کہتے ہیں ہم اپنے مکینوں کا انتظار کررہے ہیں۔وہ کب واپس آئیں گے؟زار زار بہتے میرے آنسوؤں نے اُن ناموں کو دھندلا دیا ہے ۔جو میں گلیوں کی دیواروں پر لکھے دیکھتی ہوں۔ان نوجوانوں کے نام جن کی ابھی شادیاں ہوئی تھیں۔اُن کی دلہنیں کہاں چلی گئی ہیں۔کتنے بیٹے اور بیٹیاں اپنے والدین کو کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔
شیلزshells چھتوں اور فرشوں پر بارش کی صورت برس رہے ہیں
دیواروں پر مرنے والوں کے نام لکھے ہوئے ہیں
دلہنیں تو رات بھر میں ہی بیوہ ہوگئی ہیں
بچے محاذ جنگ سے باپ کی واپسی کے منتظر ہیں
جہاز طوفان کی مانند بمباری کررہے ہیں
کہیں بچے سکول بیگوں کے ساتھ
کہیں لوگ شاپنگ بیگز کے ساتھ
خون میں لُتھڑے پڑے ہیں۔

29دسمبر 2014کو اس نے لکھا۔
لگتا ہے جیسے میں اپنے ہی شہر میں اجنبی ہوں۔
اجنبی
جس نے اپنے خوابوں کو
چوما اور شب بخیر کہا
پھر انہیں ڈھانپ دیا
اور خاموشی سے رخصت کردیا
اپنی زندگی سے چلتے ہوئے نکل گئی ہوں
اب اور اسی وقت سے
میں تو خود سے اجنبی بن گئی ہوں۔
میری بیٹی ابھی ایک ٹرپ سے واپس آئی ہے۔غم زدہ ماحول کے باوجود وہ خوش ہے اور مسکراتی ہے۔وہ پرانے سٹیم انجن کے ساتھ اپنی دوستوں کے ہمراہ برادہBaradaدریا کے کنارے کنارے منائے جانے والے اپنے ٹرپ کا احوال سناتی ہے۔
میں اپنی بیٹی کی آنکھوں سے چھلکتی امید کی روشنی دیکھتی ہوں۔
میرے اِس اداس شہر کے باسیوں میں سے وہ لوگ جو موت نہیں زندگی کے دوسرے راستے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔اُس روشنی کو اِن آنکھوں سے چھلکتے محسوس کرتی ہوں۔
ہم ہیں
ہم بکھرے شکستہ خوابوں والی نسل
جو شیلوں پر سوتی،جاگتی اور قہقہے لگاتی ہے
اِس نسل کا غم اور دکھ بس صرف اتنا
کیا بجلی اور انٹرنیٹ جلد بحال ہوگا
ہم وہ نسل جس کی خوشیاں چوری ہوگئی ہیں
تاہم ہمارے نوجوان دل زندگی کیلئے ابھی بھی کشادہ ہیں
ہم وہ نسل جو کبھی کِسی دن کہیں گے
ہم نے تاریکیوں سے جنگ کی اور اُسے کہیں دور دھکیل دیا

عمیدی کی نظمیں اور یادداشتیں حکومت شام کی سرکاری سطح پر اُن بڑھکوںیانظم و نسق کی ابتری کی یا وہ گوئیوں کی قلعی کھولتی ہیں جو حکومت نے اپنا طرزعمل بنالیا ہے۔
تاہم اس کی نظمیں اگر ایک طرف اس کے دکھوں کا اظہار ہیں تو وہیں وہ ہمارے لئے اس صبح کا بھی پیغام ہیں جو طویل اور تاریک رات کے بعد طلوع ہوگی ۔اور جو ہم جیسے مایوس اور ناامید لوگوں کے لئے ایک نوید ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *