Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔ وصاف باسط

غزل ۔۔ وصاف باسط

کسی ویران رستے پر کھڑا تھا
جہاں میں آج خود سے مل رہا تھا

جونہی تصویر ہونے کو تھی پوری
وہیں آنکھوں سے منظر گر گیا تھا

ڈرایا تھا بہت کشتی نے مجھ کو
میں جب ساحل پہ تنہا چل رہا تھا

بڑی مشکل سے کٹتی تھیں وہ راتیں
اندھیرا پاس آکر چیختا تھا

کڑی تھی دھوپ لیکن پھر بھی باسط
میں اپنے ساتھ سایہ کھیچتا تھا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *