کسی ویران رستے پر کھڑا تھا
جہاں میں آج خود سے مل رہا تھا
جونہی تصویر ہونے کو تھی پوری
وہیں آنکھوں سے منظر گر گیا تھا
ڈرایا تھا بہت کشتی نے مجھ کو
میں جب ساحل پہ تنہا چل رہا تھا
بڑی مشکل سے کٹتی تھیں وہ راتیں
اندھیرا پاس آکر چیختا تھا
کڑی تھی دھوپ لیکن پھر بھی باسط
میں اپنے ساتھ سایہ کھیچتا تھا