اُنہیں پھر پھول کہہ لو یا شرارے بانٹ آیا ہوں
میرے دامن میں جتنے تھے ستارے بانٹ آیا ہوں
مجھے کچھ لوگ کہتے تھے حساب اُن کا چکا دوں میں
گئے موسم کے جتنے تھے شمارے بانٹ آیا ہوں
پھر اُس کے بعد اے صاحب! مجھے کچھ دیکھنا کب تھا
نظر بھی دان کردی ہے نظارے بانٹ آیا ہوں
مجھے معلوم جو ہوتا تو میں منصف نہیں بنتا!
زمیں کیا بانٹ دی میں نے وہ پیارے بانٹ آیا ہوں
بھنور کی ہوگئی عادت، عجب تھا حوصلہ میرا
کہ دریا پاس رکھا ہے کنارے بانٹ آیا ہوں
ضرور ت تھی اُنہیں سیماب مجھ سے بھی کہیں بڑھ کر
عدو کے قافلے میں سب سہارے بانٹ آیا ہوں