کتاب زندگی بند ہورہی ہے
کتاب عشق کھلتی جارہی ہے
رگوں میں خون جمتا جارہا ہے
دلوں کے ورق بھرتے جارہے ہیں
سیاہی پھیلتی جارہی ہے
دلوں کے درمیاں اور چاہتوں میں
سمندر کا کوئی ساحل نہیں ہے
اور دریا ریت ہوتے جارہے ہیں
سہولت اور بڑھتی جارہی ہے
محبت دن بدن کم ہورہی ہے
کریں کیا زندگی کے کینوس پر
نئی تصویر بنتی جارہی ہے
دھواں اب پھیلتا ہی جارہا ہے
تپش سے میں بھی مرتا جارہا ہوں
کسی کی شام ہوتی جارہی ہے۔۔۔
کسی کا دن نکلتا جارہا ہے
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...