Home » پوھوزانت » بلوچی فوک ادب ۔۔۔ انور نسیم مینگل

بلوچی فوک ادب ۔۔۔ انور نسیم مینگل

فوک شاعری
دنیا میں تمام زبانوں کے اندر قدیم شاعری قومی،عوامی ، وطنی عام آدمی کی شاعری کا مطلب جانا جاتاہے اور ’’فوک‘‘ کے نام سے پہچانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کی انفرا دیت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ شاعری جس کے تخلیق کارعام لوگ ہیں۔فوک شاہری کسی بھی راج اور قوم کی تہذیب اور ” ثقافت” کی بنیا د ہے۔یہ صدیوں کی عوامی میراث ہے اس کو ترتیب دینے میں صدیاں لگ جاتی ہے۔
فوک شاعری میں اپنی سرزمین کی خوشبو ، اپنی میوہ جات کی مٹھاس، اپنی زبان کی نزاکت شامل ہے ۔اس میں اپنے پہاڑوں کی بلندی ، اپنے ندی نالوں کا بہاؤ، صحرا اور میدانوں کا پھیلاؤ، اپنے مزدور اور دہقانوں کی محنت اور اس کا روشن مستقبل شامل ہیں۔اور یہ نامور شاعروں کی تخلیق نہیں بلکہ یہ عام آدمی کی زندگی کے احساسات اور جذبات روایات کو پیش کرتی ہے۔فوک شاعری زبانی شاعری ہے جو سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی ہے۔ اس قسم کی شاعری کے تخلیق کار شاعر جانے نہیں جاتے اور یہ بھی پہچانا نہیں جاتا کہ یہ شعر ایک شاعر نے تخلیق کی۔
بچے کی پیدائش سے لے کر موت تک کی تمام حالات و اقعات احساسات و جذبات کو فوک شاعری میں دیکھا جاسکتاہے ۔اس کے علاوہ شادی میں بیاہ ،رسومات کے مواقع ، خوشی غمی کے موقعوں ،جنگی واقعات اور دیگر موضوعات بھی شامل ہیں۔فوک شاعری میں رسوم روایات سمیت سماجی زندگی کی بھر پور عکاسی کی جاتی ہیں۔ ان کے کہنے والے اس علاقہ کے چرواہے،ساربان،کسان، مزدور، پیروجواں ہوتے ہیں۔ہر زبان کی فوک شاعری میں شاعری کے مختلف اصناف موجود ہیں ۔بلوچی لوک شاعری کا ذخیرہ ضخیم ہے۔ آئیے بلوچی شاعری کے مختلف اصناف اور ان کے موضوعات پر نظر ڈالتے ہیں ۔
(1) لولی؍ لیلو (2) نازینک
(3) سوت (4) ہالو لاڑوگ لاڈو
(5) لیکو (6) لیلڑی (7) ڈیہہی (8) زہروک
(9)لیلی مور (10) لیب لچہ
(11) سپت (12) دستانک
(13) امبا (14)موتک

لولی
لولی میں عموماََ بہادرانہ شجاعانہ جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور یہ مغربی اور مشرقی بلوچستان میں گایا جاتا ہے۔ لولی کے لغوی معنی بچے کو بہلانا ، سلانا ہے۔
لیلو میں دیگر اصناف کی طرح بعض جگہ اس کے الفاظ اور نام بدل جاتے ہیں ، شہروں اور جگہوں کے نام بدلتے ہیں اور بعض اوقات ان کے معنی بھی بدلتے ہیں لیکن مقصد ایک جگہ پر رہتا ہے‘‘۔
لولی ہر اس زبان میں ملتی ہیں جس میں انسانی جذبات کی عکاسی کرنے کی صلاحیت موجود ہے کیونکہ ماں کے جذبات کسی رسم و رواج اور حدودکے پابند نہیں ہوتے ہر ماں اپنی اولاد کی زندگی میں کامیابی چا ہتی ہے اور وہ اپنے بچے کو گود میں اٹھا لیتی ہے تو اس کے احساسات و جذبا ت کی شکل میں اس کی زبان پر آتی ہے وہ ہی کلمات ہوتے ہیں اسی کو لولی کا نام دیا جاتا ہے۔
بلوچ ماؤں نے لولی کے ذریعے اپنے بچوں کو شیر خواری کے عہد میں خودداری خود اعتمادی اور انانیت کا درس دیا۔
ہالو ،لیلڑی کے بعد لولی بلوچی لوک شاعری کے قدیم ترین صنف سخن ہے۔

سوت
ٍٍ بلوچی لوک شاعری کی صنف جو کہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے علاوہ رقص عموما (چاپ دو چاپی کے تیسرے دور) میں گایا جاتا ہے اور یہ
لوک گیتوں کی مقبول ترین صنف خیال کیا جاتا ہے۔اس میں مسرت رنج وغم حجرو وصال جیسے جذبات اور احساسات کا بھی اظہارکیا جاتا ہے۔مضامین
اور طرز موسیقی کے متنوع اور گوناگوں خصوصیات کے باعث یہ صنف بلوچوں کے تقریبا سب علاقوں میں یکساں طور پر مقبول ہے۔سوت میں مرد اور عورت ناچ اور تالیوں کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔
سوت کورس کے ساتھ گائی جاتی ہے مثلا اگر ایک شعر ایک خاتون گاتی ہے جس شعر کی تکرار ہوتی ہے اس کوکورس میں خواتین گاتی ہیں اور ہر شعر کے بعد اس کی شعر کے کی تکرار ہوتی ہیں ۔
سوت اگر چہ بلوچی شاعری کی ایک نہایت متنوع اور پرانی صنف ہے یہ اور بات ہے کہ تہذیبی انحطاط نے اسے بھی پیشہ و رگائیکوں کا تختہ مشن بنا دیاہے جنہیں سوتی کہتے ہیں۔مکران کے علاقے میں بڑے بڑے سوتی گزرے ہیں۔
بعض ادیبوں کا کہنا ہے کہ ہالو ہلو ،لاڑو،لیلڑی ،لیلی مور ،زہیریگ بھی سوت کی قسمیں ہیں تا ہم یہ ایک صنف سخن کی حیثیت سے مشہور مقبول ہے۔
ہالوہلو
ہالو کا رواج مغربی اور وسطی بلوچستان میں عام ہے ۔یہ بلوچی لوک گیت دولہا ، دلہن کی تعریف و توصیف میں چھیڑے جاتے ہیں۔
ہالو کے بارے میں بعض جگہ ادیبو ں کا کہنا ہے کہ ہالو بلوچی کی ایک دیگر صنف لوک صنف لیلا ڑوکی ترقی یافتہ صورت ہے تا ہم قدیم ترین لو ک گیت کی حیثیت سے یہ عوام میں اس قدر مقبول ہے کہ آج کی بہترین منظومات بھی ان گیتوں کی جگہ نہ لیں سکیں ۔ البتہ ہالو اورنظم میں ایک دلفریب ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے وہ یوں کہ ایک موسیقار سارنگی یا دمبورہ کی لے اور ہالو کی وزن کے نظم کا ایک شعر گاتا ہے اور باقی یکجا آواز ہو کر اس کو رس میں ہالو کا نغمہ الاپتے ہے اور فضا کیف و سرور کے سرحدیں نغموں سے گونج اٹھتا ہے۔
ہالو میں عام طور پر دولہا اور دلہن کی تعریف کی جاتی ہے جس میں ان کی درازی عمر کی دعا کی جاتی ہے دونوں جوڑوں کی تعریف میں ہالو کے ساتھ گائی جاتی ہے جبکہ کو رس کی شکل میں ہالو ہالو کی تکرار ہوتی ہے۔
ہالو خاص خوشی کے اوقات میں گائی جاتی ہے جیسے کہ دلہن کے نئے لباس پہنانے دلہن کو شادی کی راتوں میں جب دولہا دلہن کے گھر آتے وقت اور بیٹھے وقت ، اور اس کو نئی لباس پہنانے کے دوران گائی جاتی ہے۔
لاڑو
لاڑوگ یا لاڑوک لاڈو مغربی اوروسطی بلوچستان میں یکساں مقبول ہیں ہالو کی طرح لاڈو بھی خوشی کا گیت ہے یہ بھی شادی کی تقریبات میں گایا جاتا ہے لاڑوک میں لیلڑ و لاڈو،لیلڑوں لاڈوکی تکرار ہوتی ہے۔لاڑوگ اور سوت ہی بنیادی طور پر کوئی خاص فرق نہیں ہے ان میں ایک طرح کے جذبات اور احساسات کااظہار ہوتا ہے۔لاڑوگ گیت میں لیلڑے لیلڑے لاڑے کے الفاظ سے شروع کیے جاتے ہیں اور ان الفاظ کی تکرار گیت میں برابر جاری رہتی ہے۔اس لئے اس صنف کو لاڑوگ کہا جاتا ہے۔
لیلڑلاڈو کے بلوچی میں ہزاروں کی تعداد میں اشعار گائے جاتے ہیں اور یہ بلوچ عوام میں اس طرح مقبول ہے جو روایتی لوگ ہے وہ ویسے گاتے ہیں جبکہ عام لوگ ہی شادی بیاہ میں اس کو خوبصورتی کے ساتھ گاتے ہیں ۔لیلڑو کو موسیقار سارنگی یا دبمبورہ کی لے پربھی گاتے ہیں ۔
براہوئی لوک شاعری میں بھی لاڑوگ ملتے ہیں اور یہ اکثر شادی و بیاں اور خوشی کے اوقات میں محبوب ک لئے گایا جاتا ہے۔
لیکو
بلوچی لوک گیت جس کو لیکو کہا جاتا ہے شتر بانوں ، چر واہوں کا یہ گیت خاران کے علاقے میں خاص طور پر مقبول ہے اس گیت میں عموماًمسافرت کا کرب ، جدائی کا دکھ اور وسال کی خوشی بیان کی جاتی ہے اور بھیڑ بکریوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے ۔
طویل سفر میں میں رات کی تاریکی اور فطرت کی نامہربانیاں ہو تولا محالہ محبوبہ کی یاد آتی ہیں اس کی جدائی تڑپا دیتی ہے گھر کا آرام اور علاقے کی یاد ستاتی ہے یہی

لیلڑی
سوت کی طرح لیلڑی بھی بلوچ میں مشہور و معروف ہے اس میں بھی ہر گیت میں لفظ” لیلڑی ” کا تکرار ہے ۔لیلڑی کے ایک ایک مصرعے کا الگ الگ مطلب تو نکل سکتا ہے لیکن جب پورا شعر پڑھا جاتا ہے تو وہ معنوی طور پر غیر مربوط ہو جاتاہے اوور یہی لیلڑی کی خصوصیت ہے۔
بعض ادیبوں کا کہنا ہے کہ یہ لوک گیت مشرقی بلوچستان میں زیادہ مقبول ہیں میں اس پر اتفاق نہیں کرتا بلکہ یہ مغربی بلوچستان اور دیگر علاقوں میں بھی گایا جاتا ہے اسے موسیقی میں بھی گایا جاتا ہے۔
لیلڑی میں مختلف موضوعات ہو تے ہیں بچے سے لے کر جوان معشوقہ شہر گاؤں ،پہاڑ، ندی نالے بیاباں ،جانور چرند پرند سب کو اشعار کا موضوع بنایا جاتا ہے۔
مختصر بحروں میں گایا جانے والا یہ لوک گیت بلوچ عوام میں بے حد مقبول ہے۔براہوی زبان میں لیلڑی کے لوک گیت ملتے ہیں ۔
یہ بھی بلوچی لوک گیت کی ایک قسم ہے اصل میں نازینک ،نازینگ سے نکلا ہے جس کے معنی تعریف کرنا ۔
نازینک وہ نظم ہے کہ جس میں دولہا اور دلہن کی تعریف اور ان لوگوں کی تعریف جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں اچھے کارنامے سرانجام دیے ہو ان کیلئے نازینک گائے جاتے ہیں ۔دوسری بات غور کیا جائے تو نہ صرف لولی ہالو اور لاڑوگ بھی خوشی کے شعر ہیں جو کہ نازینک سے مماثلت رکھتے ہیں ۔مگر یہ الگ بات ہے اس میں ہر ایک کی اپنی الگ اوقات ہیں لیکن مضمون کے حوالے سے تمام ایک دوسرے سئے نزدیکی رکھتے ہیں ۔نازینک میں اپنے بچوں کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ ان کو بہادری، مردانگی کیلئے بھی ابھارا جاتا ہے ۔
ڈیہی
ڈیہہ کے لغوی معنی وطن اور ڈیہی ،وطن سے متعلقہ معنی رکھتا ہے ۔ڈیہی بلوچستان کے مشرقی علاقوں کا مقبول لوک گیت ہے اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ڈیہی لوک گیت پہچانے بھی یو ں ہی جاتے ہیں کہ ان میں لفظ ڈیہی کی تکرار ہوتی ہے حالانکہ لفظ ڈیہی کی تکرار اس صنفٖ سے متعلقہ گیت کے لیے لازمی نہیں۔
ڈیہی میں وطن اور ملک کے ساتھ ساتھ ہجرو فراق کا ذکر بھی ملتا ہے اور بلوچی لوک شاعری میں اس کو عام و خاص سب گاتے ہیں ۔اتنی مقبول اور خوبصورت صنف ہے کہ چاہے کہ مرد ہو جوان ،عاشق یا غیر جانب دار مردوزن سب گاتے ہیں ۔
اس حوالے سے ڈاکٹر شاہ محمد مری کہتے ہیں “عطا شاد نے ڈیہی کے حوالے سے کہا ہے کہ ڈیہی ڈیہہ سے نکلا ہے جسکا مطلب وطن ہے ۔سچی بات یہ ہے کہ یہ رسد تصور درست نہیں ڈیہی کے اندر وطن کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ہوتا بلکہ ڈیہی کی طرح کا نازک جذبات کے اظہار کی قالب ہوتی ہے ۔کھیترانڑیں اور پشتو میں “ڈیہی ” کو ” ڈی ہو” کہتے ہیں جس لفظ کا وطن سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے ڈیہی اور ڈیہہ کو زبردستی باہم نتھی نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
ڈیہی کے لئے موقع ومحل لازمی نہیں ہے یہ کسی بھی موقع محل میں گایا جاسکتا ہے یہ جدائی ہجر وفراق انتظار کے موضوعات سے بھر پور ہے۔
ڈیہی چرواہا چراگاہوں میں گاتا ہے تو صحراؤں میں شتر بان بھی گا سکتا ہے یہ شادی بیاہ میں بھی گائی جاتی ہے تو پہاڑوں کے دامن میں بھی تو ندی نالوں کے قریب بھی مرد خواتین بھی گا سکتی ہیں ۔
ڈیہی ہر شخص کی رسائی والی صنف ہے اور یہ شاید بلوچی شاعری میں اب تک قائم رہنے والی صنف ہے اس لئے کہ اس میں مستقبل کے عزائم بھی ہیں ۔بلاشبہ یہ نوجوان کے امروز کی نقیب میں ہے اور معمرکے بیروز کی گہری و لمبی آہ بھی ہے۔
اپنے مخصوص دھن سے قطع نظریہ سوت سے مشابہت رکھتی ہے یعنی وہ تمام مضامین و خیالات بیان ہوتے ہیں جو سوت اور لدڑوگ وغیرہ کا حصہ لازمہ ہے۔
زہیروک
زہیروک کو زہیرکے معنی ہیں یاد۔اس لئے گیتوں کی اس صنف میں عام طور پر انتظار ہجرو فراق کے موضوعات کا بیان ہوتا ہے اور یہ عام لوک گیتوں سے قدرے مختلف ہے اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ یہ مخصوص غم ناک موسیقی کے ساتھ گائی جاتی ہے ۔
زہیروک کے بول نہایت سریلے ،پرجوش اور پرسوز ہوتے ہیں زہیروک لوک گیت ایک مخصوص اور موسیقی طرز موسیقی کا حامل بھی ہے۔
اسے عام طور پر عورتیں چکی پیستے وقت گاتی ہیں جبکہ شتربان رات کو سفر کے دوران اسے گنگناتے ہیں ۔
زہیروک میں گیت کے غمناک آہنگ سے بچھڑے ہوؤں کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔ ذات کی گہرائی کے اظہار کیلئے زہیروک سے زیادہ موثر صنف شاید ہی کچھ اور ہو زہیروک ہی لیکو اور ڈیہی کی طرح ہیں۔یہ سیدھی سیدھی جدائی اور فراق کو چھیڑنے والی صنف ہے کبھی ساز اور بھی بغیر ساز کے خوش الحانی گلے سے چھیڑتے ہیں اور زہیروک شتر بانوں کی پسندیدہ لوک گیت صنف ہے ۔
زہیروک بلوچی لوک شاعری کے دیگر اصناف کی طرح ایک توانا صنف ہے چونکہ یہ شتربانوں کی پسندیدہ بلوچی لوک گیت ہے تو یہ رخشانی بلوچی میں بولی جاتی ہوگی۔
زہیروک کے بول نہایت سریلے ہیں اور اس میں بحور اور اوزان میں یکسانی نہیں اور جذبات و احساسات کے الفاظ فریفتہ خیالات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

لیلی مور
یہ وسط بلوچستان میں گانے ولا بلوچی گیت ہے اس میں قریباََ ہر طرح کے جذبات کا اظہار ہوتاہے ۔اس صنف کی وجہ تمیز اس کی مخصوص دھن ہے۔ یہ بلوچی اور براہوئی دونوں میں گایا جاتا ہے ۔اس کے موضوعات بھی محبوب ،ہجرو فراق ہو تے ہیں ۔
لیب لچہ
لیب لچہ ۔لوک شاعری کو بلوچی ادب میں خاص مقام حاصل ہے لیب لچہ کے لفظی معنی ” کھیل کی منظومات ” ہیں اس کو ” لیب سوت ” اور کھیل کا سوت بھی کہا جاتا ہے ۔چھوٹے بحروں اور چار بندوں میں یا چھوٹی بڑی نظم ہوتے ہیں ۔ اس میں ایسے الفاظ آتے ہیں جو کہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ردہم کو برابر کرنے کے لئے بولے جاتے ہیں اور زیادہ تر کھیلوں کے لئے بولے جاتے ہیں اور یہ بچے گاتے ہیں برسات کے موسم میں اور دیگر ایسے مواقع پر لیب لچہ کافی بولے جاتے ہیں۔
یہ لیب لچہ ملاحظہ کریں ۔
ادلک ءُ بدلک
لایاں لیجو
ٹپ ٹیلنگو
آراں چور چور
کتی جتی نادلی
برنج ولینج
کابل ء۔کل
کل ءَ مہ کل
آہڑ و باہر
کچ وکٹا
لیب لچہ کے ذخیرہ ہی بلوچی لوک ادب میں زیادہ ہے۔
سپت
سپت کے بلوچی میں لغوی معنی ۔تعریف کرنا توصیف کرنا سپت میں تعریف کی جاتی ہے اور اس میں مذہبی اور روحانی عقیدت کا رنگ نظر آتا ہے اور اس میں عام طور پر حمدیہ اور مناقب سے متعلق مضامین ادا کیے جاتے ہیں ۔بلوچ عورتیں اسے بچے کی پیدائش پر کئی کئی راتوں تک زچہ کے لئے گاتی ہیں اور وہ مل کر سپت گاتی ہیں اور ساز و غیرہ سپت کیلئے ضروری نہیں اور یہ مکران کا مقبول لوک گیت ہے اور کورس میں بھی گایا جاتا ہے ۔
اس میں بعض شعر چھوٹے بحروں میں اور دو دو بندوں کے شعر ہوتے ہیں لیکن بعض بڑے بڑے شعربھی ہیں ۔سپت کا تعلق مذہبی ورو حانی شاعری سے ہے تاہم دیگر موضوعات کے بھی یہ خالی نہیں ہے۔
دستا نغ
اس لوک گیت کو دستا نغ کہا جاتا ہے ۔ یہ طویل ہوتی ہے ، اتنا کہ سینکڑوں اشعار پر محیط ہوتاہے۔اس کے موضوعات زیادہ تر حسن و عشق ، ہجرو صال پر مشتمل ہیں۔اورکبھی کبھار تاریخی واقعات کو بھی اس میں
بیان کیا جاتا ہے اور اسے نڑ پر بھی گایا جاتا ہے۔یہ پہاڑی علاقوں کے بلوچوں کی مقبول لوک گیت ہے۔ دستانک بلوچی لوک گیت کے اصناف میں نہایت دلآویز صنف ہے ا ور نڑ ہی ایسا ساز ہے جو بلوچ تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے نڑ کے ذریعے سلام و پیغام بھیجا جاتا ہے ۔
دستا نغ میں روحانی حکایات، فطرت کے مناظر رزمیہ کہانیوں پر مشتمل موضوعات بھی ہوتے ہیں اور یہ روایتی بلوچی سادگی سے مزین صنف ہے ۔ اس کے موضوعات میں دین تصوف اخلاقیات ، ادب، عشق بزم ازم اور توصیف سب آتے ہیں ۔
دستانغ جنگی بھی ہوسکتی ہے جس میں کسی دوسرے قبیلے کے ساتھ یا پھر قبیلے کے اندر کی لڑائی کا قصہ ہوتاہے یہ ہنگامہ خیزواقعات کی ہنگامی خیز نگاری ہو تی ہے ۔اگر آج بلوچ کی تاریخ مرتب ہو سکی ہے تو اس میں دستانغ اور شئیر کا بہت بڑا حصہ ہے ۔
امبا
یہ محنت کشوں کا لوک گیت ہے جب کبھی محنت کش محنت میں مگن ہو تو یہ محنت کشوں کے اجتماعی کام میں قوتیں ملا کر زور لگانے کیلئے امبا گاتے ہیں اور اس کو بلخصوص ساحل مکران کے ماہی گیروں کے لئے مخصوص کیا جاتا ہے۔مگر بلوچوں میں بجار حشر کاری اور دیگر ایسی حیات زندگی میں ایسی رسم ورواج ہیں۔جس میں مدد و تعاون شامل ہوں اس طرح کے اجتماعیت میں امباء کی رنگت نظر آتی ہے امبا گایا جاتا ہے۔
امبا سوت کی طرح ہے جس میں الفاظ کی روانی ساتھ گایا جاتا ہے ہر امباء میں ایک سبق ہو تا ہے جس میں اجتماعیت نظر آئے اور اجتماعی کام کیا جائے اس
کو مرد اور خواتین گاتی ہیں۔
موتک
موتک موت سے مشتق ہے جس کے معنی ہے ” سوگ” اس لئے اس میں مرنے والے کی موت کا ذکر اور رنجو غم کا اظہار کیا جاتاہے ۔
موتک کا آہنگ ” زہیروک” سے مماثلت رکھتا ہے بلوچ معاشرہ میں موتک کو بڑی اہمیت حاصل ہے جب کوئی فرد فوت ہو جاتا ہے تو گاؤں کی عورتیں مرنے والے کے یہاں پر سے کے لیے اپنے قلبی حالت کا اظہار ” موتک ” گا کر کرتی ہیں۔
موتک عموما ایک ساتھ بہت سی عورتیں مل کر گاتی ہیں اس طرح وہ نہ صرف مرنے والے کے اوصاف بیان کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتی ہیں بلکہ اس
شخص کا غم بھی بانٹ لیتے ہیں اس کے مضامین میں مرنے والے کا عمر ،رشتے کی مناسبت اور مرنے والے کے ذاتی اوصاف اور شخصیت پر مشتمل ہو تے ہیں۔
بعض لوگ موتک کو کو رس کی شکل میں بھی گاتے ہیں جس میں ایک فرد گاتا ہے تو باقی کورس کی شکل میں اس کے ساتھ گاتے ہیں ۔قدیم لوک گیتوں میں موتک کے علاوہ ادبی و انفرادی نوحے بھی ملتے ہیں ۔
جس طرح نتھا کی وفات پر اس کی بیوی سیمک نے جو موتک لکھی ہے بلوچی کی ایک کلاسیکل شاعری کا عمدہ نمونہ ہے۔ملا حیدر کلمتی کا موتک کلمتی شہیدوں کے بارے میں،رودین کا موتک مراد شاہ کلمتی ، ملا مراد کا موتک اپنے بھائی کے نام اسی طرح میران کا موتک جس میں نوحہ کے حوالے سے عمدہ نمونے ہیں ۔
غرض کے بلوچ لوک شاعری کی بنیادی وطن سے پیوستہ ہیں بلوچی لوک شاعری کے حوالے سے بھی کافی کام ہوا ہے جس میں لونگ ورتھ ڈیمزکے علاوہ عطا شاد عین سلام ۔غوث بخش صابر ، میرگل خان نصیر ، کامل القادری ، ڈاکٹر شاہ محمد مری ، ڈاکٹر فضل خالق کے علاوہ دیگر نے کتابیں اور مضامین بھی لکھے ہیں ۔جو کہ بلوچی لوک شاعری کی سرمایہ حیات ہیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *