’’ عشق کا رستہ عجب ہے
یہ پیہم برق ہے
دیوانگی ہے
حرکتِ بے رنگ ہے
جس کو سائنسدان کہتے ہیں،
خلاؤں میں خلا کا جال،
یعنیdark matter
عشق وہ مادہ ہے وہ سیال ہے۔
عشق سے طاری خداؤں کے دلوں میں
پلتی تنہائی پہ گویا حال ہے۔
عشق ہے وہ لہر
جو کہ ذات کی باریک پوروں سے گزرتا ہے
تو پل بھر میں وجودِ خام کے آگے
بدل جاتے ہیں منظر
ایسی دنیائیں ہیں جن کے حسن میں
بہہ بہہ کے
تھک جاتی ہیں آنکھیں
دور تک پھیلتی ہوئی وسعت میں
گم جاتی ہیں یکسر!
مگر یہ المیہ بھی ہے۔
یونہی پل بھر کو بھی
گر عشق کی اس بے کرانی سے
نظر ٹوٹے تو ایسے
وسعتوں کے بھید سے آزاد ہوجائے
کہ جیسے بے سروساماں
کوئی بیمار جاں
آپ اپنے قہر میں غلطاں
کہیں بے ربط و بے ہنگم زماں کے دائروں میں
ڈولتا جائے،
حدوں کی بے حسی میں غم کے مارے
ساری لا۔ حد رولتا جائے
مگر یہ برق اپنے ربط سے بچھڑے ہوؤں میں
ایسی روحو ں کی کشش محسوس کرتی ہے
جو اس کے حسن کا حصہ تھیں،
لیکن وہ وجودِ نا مراد و نا گہاں کے
بیچ میں آکر
معنی کی سرنگوں کی طرف لپکیں
مگر یہ حرکتِ بے رنگ یہ برقِ رواں
اپنے زندیقوں کو ایسے ملحدوں کو
اپنے شعلے کی طرف پیہم بلاتی ہے‘‘۔