تاریخ بتاتی ہے کہ گیارہ ہزار سال قبل مہر گڑھ ہی میں انسان، امیر اور غریب میں بٹ چکے تھے۔ انسان کی حاکم اور محکوم میں تقسیم ہوچکی تھی۔ اورعورتوں کو محکوم طبقے میں ہانکنے کا عمل مکمل ہوچکا تھا۔ اگلے گیارہ ہزار سال تو بس اس محکو میت کو مزید گہرا ،پیچیدہ، حقیر اور قابلِ نفرت بناتے رہنے کے سال تھے۔ اس لیے جو لوگ عورت کی عقل کو پاؤ ں کی ایڑھی میں سمجھتے ہیں، اسے بُزوالے دل کی مالک سمجھتے ہیں، اُسے محکوم رکھتے ہیں وہ آج سے ایسا نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ سلسلہ گیارہ ہزار سال پرانی چلی آرہی ہیں۔ مہا تما بدھ سے قبل، حضرت موسیٰ ؑ سے بھی قبل، حضرت عیسؑ یٰ سے بھی قبل ۔ گیارہ ہزار سال قبل۔اِن گیارہ ہزار سال میں کتنے دانا آئے ، کتنے صوفی سینٹ، شاعر، نیک اور مصلح آئے مگر عورت کی محکومی اور اس کا تنزل جاری رہا۔
اِسے جاری رہنا بھی تھا اس لیے کہ فیوڈل اور ما قبل فیوڈل سماجوں میں اِس محکومی کی ضرورت تھی۔ جاگیرداری اور اس سے قبل والے سماج میں عورت کا ذاتی ملکیت کی ’’چیز ‘‘ہونا اُس سماج کی ضرورت ہوتی ہے ۔
چنانچہ اِن گیارہ ہزار سالوں سے سماج نے عورت کو مرد کی پکی اور حتمی ملکیت میں رہنے کے لیے رواج بنائے، قوانین مرتب کیے، شاعری اور ضر ب الامثال بنوائیں، حکایتیں کہانیاں اور عقیدے وضع کیے۔ اسی کام کے لیے سیاست و ریاست کا قالب ڈھال دیے۔ آئین بنالی۔ شاعر، پیر، پنڈت اور پھر بعد میں اخبار ، ریڈیو ، ٹی وی اور اب انٹرنیٹ اور موبائل فون سے وابستہ ساری انفارمیشن ٹکنالوجی اسی بات کو ذہنوں میں پکا کرنے کے لیے وجود میں لائے گئے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ عورت مخالف سماج ،پورے کا پورا متحد ہے۔ اِس کا اتحاد دنیا بھر میں انسانیت دشمن قوتوں سے ہے۔ چنانچہ عورت دشمن قوت ایک بین الاقوامی مافیا ہے جو قیاس سے بھی زیادہ متحد و مضبوط ہے۔
چنانچہ آج عورت کی غلامی محض تاریخی ہی نہیں ،سماجی سیاسی تہذیبی اور آئینی بھی ہے۔ اس قدر فول پروف، واٹر پروف، ایئر ٹائٹ کہ عقل دنگ رہ جائے۔ آپ اس غلامی کے خلاف زور لگا لگا کرکسی ایک شعبہ میں کچھ نرمی پیدا کربھی دیں تو فوراً پورا سماج حرکت میں آجاتا ہے ۔غیرت آجاتی ہے، شاعری آتی ہے، ملا پنڈت، آئین قانون، جلسہ جلوس، عصمت حشمت ، غیرت۔۔۔۔۔۔ ایک ایسی کھلبلی مچ جاتی ہے کہ وہ روزن یک دم بند کی جاتی ہے ۔ یا گھما پھرا کر دوسری شکل میں لاگو کی جاتی ہے۔
راستہ؟ ۔کوئی راستہ ہے؟۔ کوئی نجات ہے؟۔
نہیں مستقبل قریب میں کوئی مکمل اور حتمی نجات، نہیں ہے۔ دو ہی راستے ہیں:
-1 عوامی سطح پر ایسے متبادل سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچے قائم کرتے رہنا تاکہ وہاں عورت سرگرم رہے ، چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کے حصول کی تگ دو کرتی رہے ،اور معاشرے میں اپنا تعمیری و تخلیقی کردار ادا کرسکے۔
-2 چونکہ عورت کی نجات پورے محکوم طبقات کی نجات سے وابستہ ہے۔ اس لیے محض اِسی ایک سمت اور ایک محاذ پہ لڑنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ نجات کا جان لیوا منظر نامہ تو ہمہ جہتی اور ہمہ وقتی شعوری جہدِ پیہم کا متقاضی ہوتا ہے۔سارے شعبے ، سارے اطراف اور سارے محاذ سنبھالنے ہوتے ہیں۔ ایسی شعوری اور اجتماعی جدوجہد جس کا مقصد انسانی معاشرے سے ہرقسم کے استحصال اور امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہو۔ اِس جدوجہد کا اجتماعی ہونا ضروری ہے ۔ چنانچہ عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی جدوجہد کو بہتر بناتے رہنے اور اسے تیز رفتار کامیابی تک لے جانے کے لیے اسے کُل انسانی جدوجہد کا حصہ بنانا ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں عورت کو اپنی محکومیت کے خاتمے کے لیے ہر طرف سے اتحادی چاہییں۔ سماج میں موجود اس عورت دشمن قوت کے خلاف ہر گروہ ، اور ہر طبقہ کے ،ہر تضاد کو استعمال کرنا ہوگا۔چوں کہ پورا ڈھانچہ گرائے بغیر کوئی نجات نہیں، لہٰذا پورے ڈھانچے میں اتحادی ڈھونڈنے ہوں گے۔
تو پھر یہ اتحادی ہیں کون؟
ہمارے جیسے جاگیرداری سماجوں میں کسان تحریک، عورت تحریک کی سب سے بڑی اتحادی ہوتی ہے ۔اس لیے کہ اِس استحصالی سماج سے کہ اُس کا اپنا بھی زبردست تضاد موجود ہوتا ہے۔ نہ صرف اُس کی پیداوار جاگیردار لے جاتا ہے بلکہ ریاستی پشت پناہی کی وجہ سے جاگیردار کسان کی معیشت، سماجی سیاسی تعلقات حتیٰ کہ گھریلو معاملات کا مالک بھی ہوتا ہے۔ علاقے کے اپنے ٹرانسفر کردہ ڈی سی او ، اور ایس ایچ او کے ذریعے وہ اپنے رقبے میں موجود ہر انسان، بھینس اور بکری کا آقا ہوتا ہے۔ یوں کسان عملی طور پر جاگیردار کا غلام ہوتا ہے۔ جاگیرداراور کسان کا یہ تضاد بنیادی ہے، مستقل ہے اور مخاصم ہے۔ چنانچہ جاگیرداری نظام کے مخالف کسان طبقہ کی تحریک، عورتوں کی نجات کی تحریک کا ایک حتمی اور تاابد اتحادی ہے۔
بلوچستان میں جہاں جہاں کوئی چھوٹی بڑی صنعت موجودہے وہاں کا مزدور بھی نظام میں بنیادی تبدیلی چاہتا ہے۔ وہ مزدور خواہ معدنی کانوں کے ہوں، ریلوے واپڈا کے ہوں یا ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ۔وہ سرمایہ دار کے نفع اور مفاد کی زنجیروں میں جکڑتے ہوتے ہیں۔ وہ اِس معاشی قید سے آزادی چاہتے ہیں ۔ اسی لیے وہ ہمیشہ کبھی منظم اور کبھی خود رو بغاوتیں کرتے رہتے ہیں ۔چنانچہ مزدوروں کے ٹریڈ یونین اور اُن کی سیاسی پارٹیاں عورتوں کی نجات تحریک کے فطری اور دیرپا اتحادی ہوتی ہیں۔
بلوچستان کا درمیانہ طبقہ بھی روٹی روزگار کی کمیابی، شہری آزادیوں سے بہرور نہ ہوسکنے اور دیگر ریاستی زور زیادتیوں سے نالاں رہتا ہے۔ سفید کالر والے اپنی زندگیوں میں مزید آسائشوں سہولتوں کے امکانات کے لیے ہمہ وقت چوکنا رہتے ہیں۔ یہ لوگ سماج میں کوئی بنیادی تبدیلی تو شاید نہ چاہتے ہوں گے مگر، موجود سے بہر حال غیر مطمئن رہتے ہیں ۔ لہٰذا ان سے دیرپاوفا اور رفاقت کی توقع رکھے بغیر اِن کی حتمی اور مستقل غیر مطمئنی کو اتحادی بنایا جاسکتا ہے۔
شاعر، ادیب، آرٹسٹ ، اور دانشوروں سے بھی ایک حصہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جس کا شعور اس کو سماجی تبدیلی کی طرف راغب کیے رکھتا ہے۔ اور وہ عوام الناس کی طرفداری اورترجمانی میں اپنی تخلیقات کرتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے نجات یافتہ لوگوں کی تنظیمیں ، ایسوسی ایشنیں اور افراد بھی عورتوں کی تحریک کے اتحادی ہوتے ہیں۔
چنانچہ ایک منظم و باشعور عورت تحریک مذکورہ بالا طبقات اور گروہوں کے ساتھ ساتھ چل کر اُس سماج کو بالآخرشکست دے سکتی ہے جو طبقاتی، قومیتی اور صنفی استحصال پہ کھڑا ہے۔
Check Also
زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا امینی
ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...