Home » پوھوزانت » فکرِ فرید اور تہذیبوں کا تصادم ۔۔۔ پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین

فکرِ فرید اور تہذیبوں کا تصادم ۔۔۔ پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین

کولڈ وار کے خاتمے کے ساتھ ہی ایشیا کا ہمارا خطہ زمانے میں ذلیل ورسوا ہو کر رہ گیاہے۔نوے کی دہائی میں یہ باتیں سامنے آنے لگی تھیں کہ ترقی یافتہ ورلڈ جسے مہذب دنیا کا نام بھی دیا جا تا ہے کو متحد رکھنے کے لیے شاید اب کسی بڑے عفریت کی ضرورت ہے۔ روس کے بکھراؤ اور مدمقابل سپر پاور کی معدومیت نے یہ بڑا عفریت مذہبی جنونیت کی صورت میں امریکہ اور اہل یورپ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے ۔ جب تک دنیا میں دو عالمی طاقتوں کے زیر اثر دو واضح بلاک رہے تو تضاد سیاست اور معیشت تک محدود رہا ۔ اگرچہ سرمایہ دارانہ بلاک نے سوشلسٹ بلاک کو مات دینے کے لیے اپنے بعض اتحادیوں کو مذہب کے گھن چکر میں پھنسائے رکھا اور انہیں جمہوریت اور لبرل ازم سے کوسوں دور رکھا بطور خاص اکثرمسلمان حکمران والی ریاستیں اپنے اپنے عوام کو مذہب کے تحفظ کے لیے جہاد کے درس دیتی رہیں اور تعلیمی اداروں اور میڈیا کو ایک خاص طرح کے مائنڈ سیٹ کی تشکیل دینے میں مگن رکھا۔ اور جونہی کولڈ وار کا خاتمہ ہوا تو یہ کمزور اور اپنی اپنی رائے سے عاری ریاستیں بڑے مخمصے کا شکار ہو گئیں ۔ جہاں ترقی پسند لیفٹ کے نظریات رکھنے والے ممالک کے لوگ یکلخت بے سایہ ہونے لگے اور خود کو بے یار و مدد گار اور تنہامحسوس کرنے لگے وہاں خفیہ فنڈز سے چلنے والی مذہبی تنظیمیں بھی سر پر ستی سے محروم اور معاشی بحرانوں کا شکار ہونے لگیں ۔ ایک عرصے تک مذہبی جنونیت کو سچ سمجھنے والے کئی طبقات اور گروہ یہ باور کرنے لگے کہ ان کے دکھوں کی ذمہ دار مہذب دنیا ہے اور اس جانب کبھی توجہ ہی نہ دی کہ ان کا تنہااور غریب رہ جانے کی وجہ ان کی ریاستی پالیسیاں اور ذہنی پس ماندگی ہے۔ انہوں نے روح عصر کو سمجھے بغیر ہی اپنا سفر جاری رکھا۔ یہ تمام عقیدے کی غلط تشریح کی پیداوار ہیں ۔ مغرب والوں نے اس تضاد کو مزید بڑھانے کے لیے ’’ تہذیبوں کا ٹکراؤ ‘‘ کا تصور پیش کر کے مسلم اور نان مسلم ورلڈ کو دو الگ الگ خانوں میں منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔
اس تلخ عالمی منظر نامے میں پاکستان کو ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے۔ کچھ انٹرنیشنل سیاسی چالیں اور کچھ عقیدے کی غلط تشریح نے ہمارا جو شناختی کارڈ متعارف کرایا ہے وہ جنونیت ، انتہا پسندی ، عدم برداشت ، تشدد ، تعصب، کام چوری ، کاہلی اور مفاد پرستی کے حواے سے پوری دنیا میں یہی پورٹریٹ پینٹ ہو رہا ہے ۔ اور پاکستان میں محرومیوں اور رد کرنے کی پالیسیوں کے بموجب بطور خاص سرائیکی وسیب پر یہ انگلی اٹھائی جانے لگی ہے کہ دہشت گردی کی بڑی نرسری یہیں تیار ہو رہی ہے ۔ اسی طرح کے ماحول میں اب ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کہ ملک کو اس عفریت سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک عجیب مخمصہ ہے جو برصغیر پا ک و ہند میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے فوری بعد ظاہر ہونے لگا تھا اور جزیرۃ العرب میں طویل شخصی حکومتوں نے اندر ہی اندر ایک بے چینی اور افراتفری کے بیج کو نمو دینے کے حالات پیدا کیے رکھے۔1857ء کے بعد تو یہاں عجیب طرح کی ذہنی کشمکش پیدا ہونے لگی تھی اور غالب جیسا نابغہ روز گار شاعر چلا اٹھا تھا کہ:
؂ ’’ایمان‘‘ مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے ’’کفر‘‘
’’کعبہ ‘‘میرے پیچھے ہے’’ کلیسا ‘‘مرے آگے
اسی مخمصے اور افراتفری نے ایک جگہ طالبان اور دوسری جگہ داعش جیسی یلغار کو جنم دیا اور ستم ظریفی دیکھیے کہ ان یلغاروں کی سفاکیت کے خلاف بننے والا مسلم ممالک کا اتحاد بھی ایک اور مخمصے کو ظاہر کر رہا ہے ، کہیں یہ مسلم دنیا کے خلاف عالمی سازش تو نہیں یا پھر اس دنیا کی اپنی کج رویوں اور غفلتوں کا منطقی انجام ہے ؟ دنیا میں کہیں بھی عیسائی ، بدھ ، یہودی ، ہندو یا کسی اور مذہب کے نام پرکسی دنیا کا حوالہ ہی نہیں ملتا سوائے ہم مسلمانوں کے ۔ اس لیے بعض اوقات تو یہ تہذیبوں کا تصادم اہل اسلام کے خلاف متحد ہونے کا سبب لگتا ہے کیونکہ کولڈ وار کے خاتمے کے بعد فرسٹ ورلڈ کو متحد کرنے کا کوئی اور ہتھیار بچا ہی نہیں ورنہ تو دنیاگلوبل ویلج کے نام پر سکڑ کر رہ گئی ہے۔ اور دنیا کا یہ اختصار نا اہل اور نکمی اقوام کے لیے محرومیوں کا پختہ بنیاد ہے، ایسے ہی مسلمانوں کو اپنے رویوں میں
اساسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور یہ رویہ صوفیانہ طرز احساس ہی سے بدلا جا سکتا ہے ۔عبدالجمیل خان نے اپنی کتاب”The politics of language, urdu/ Hindi, An artificial Divide”میں نہایت مناسب بات کہی ہے کہ زبان اور کلچروحدت کا درس دیتے ہیں اور آپس میں جوڑ کر رکھنے والے حرکیا تی اور کلیت پسند ہیں جبکہ مذاہب عموماً تقسیم پسند اور فرقوں میں قابل تقسیم ہوتے ہیں ۔ اس لیے زبان، کلچر اور تہذیب کے مباحث فنون لطیفہ کے ملبوس میں فروغ پیدا ہوتے ہیں تو تہذیبی جڑت اور احترام انسانیت کا ماحول جنم لیتا ہے۔خواجہ غلام فرید ؒ کا ظہور برصغیر پا ک و ہند کے اس دور میں ہوا جب کالونیل عہد یہاں آخری سانسیں لے رہا تھا، انیسویں صدی کا نصف آخر آنے والی تاریخ کا تعین کرنے لگا تھا۔ بیسویں صدی کا نصف اول تاریخ برصغیر پا ک وہند کے لیے نہایت اہم ثابت ہوا ، ویسے انہی پانچ دہائیوں میں دو عالمی جنگیں ہوئیں اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ اب برطانوی سامراج کی طبعی عمر پوری ہو چکی ہے اور دنیا دو متضاد فکر کو لیے الگ الگ حصوں میں بٹ کر آگے کی طرف سفر کرنے لگی اور دونوں بلاکس اپنے اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد حاصل کرکے نئے سماجی اور سیاسی معاہدوں میں مصروف ہو گئے ایسے میں پیدا ہونے والے خلا کے لیے محروم ، اداس اور بے یارو مدد گار دنیا کے لیے نئے افکار کی ضرورت بہرحال موجود ہے مگر نئی اور ترقی پسندانہ لبرل سوچ سے عادی قیادتوں نے تشدد اور انتہا پسندی کا خاتمہ طاقت سے کرنے کا ذریعہ اختیار کیا ہے جبکہ ہمارے پاس احترام آدمیت سے عبارت صوفیانہ افکار موجود ہیں ، اس تناظر میں خواجہ صاحب جدید ترین صوفی شاعر ہیں جنہوں نے دکھوں ، نفرتوں اور تعصبات سے اٹی اپنے عہد کی دنیا کو مشاہدہ کر لیا تھا ۔ اسے شانت، پاکیزہ اور پر امن بنانے کے لیے روا داری کا درس دیا تھااور اس دعا کے طلب گار ہوئے تھے۔
؂ عالی، ادنیٰ ، جو جگ جیوے میں وانگے بئی کئی نہ تھیوے
ڈکھڑی ، وانڈھی، ویلھی و ویار
[ دنیا میں جو بھی ادنیٰ عالیٰ ہے، جیتا رہے ، خدا کرے، مجھ جیسی کوئی اور نہ ہو، دکھی۔ الگ تھلگ، بیکار اے دوست] خواجہ سائیں آج کے نام نہاد تہذیبی تصادمات میں ایک صلح کا راستہ دکھاتے ہیں وہ تو سری کرشن جی اور رام چند جی کو بھی پاکیزہ ہستیوں کے ذیل میں دیکھتے ہیں اور ویدوں کو بھی نظر استحسان سے دیکھتے ہیں ۔’’ مقابیس المجالس ‘‘ میں دلچسپ پرائے میں ایسے واقعات ، مکالمے اور تشریحات پیش کرتے ہیں جن کا تعلق عالمگیر محبت ، رواداری ، جذب مستی اور پاکیزہ باطنی کیفیات سے ہے، سرائیکی زبان کے متوالے اس شاعر نے اردو زبان اور دیگر زبانوں میں مہارت حاصل کر کے ان کا اعتراف کیا جو اس بات کا غما زہے کہ آپ کے نفرت کے رویوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔
اس طرح کے لاتعداد اشعار خواجہ فرید ؒ کے کلام میں جلوہ افروز ہیں جن سے یکسانیت ، برابری اور عالمگیریت کا تاثر اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود رہتا ہے ۔ ان اشعار میں اپنی تخلیقی توانائی موجود ہے کہ صرف سرائیکی وسیب نہیں بلکہ پورا ملک اپنی اجتماعی شخصیت کی پہچان کرا سکتے ہیں۔ ثقافتی اور تہذیبی حوالے اور تخلیقی رنگ جب تک قوموں کی شناخت کے حوالے سے رہتے ہیں تب تک قومیں باوقار اور پر امن رہتی ہیں ۔ ہمارے ہاں جس تخلیقیت اور اجتماعیت کا خلا پیدا ہوا ہے وہ بنیادی طور پر نظریاتی بانجھ پن کی وجہ سے ہوا ہے ۔ ہر دور کی مہذب دینا ہمیشہ اپنے تہذیبی ورثے سے جڑی ہوتی ہے ہمارے ہاں المیہ یہ ہوا ہے کہ ہم نے کبھی اپنے تہذیبی ورثے کو اپنے من میں سمویا ہی نہیں ، خواجہ سئیں یا ان کے قبیل کی دیگر شخصیات کے ہاں جگہ جگہ تحفظ اور پیار کے درس موجو د ہیں مگر ہم نے کسی اور جہاں میں اپنی پناہ ڈھونڈی ہے ۔ آج تہذیبوں کے تصادم کے فلسفے کے پیچھے جو عفریت چھپا بیٹھا ہے اس کا فکر فرید ؒ سے قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔
خواجہ فریدؒ اپنی سماجی اور معاشی حیثیت میں ایک شہزادے تھے پھر بھی بار بار روہی کے لق و دق صحرا کی طرف نکل جایا کرتے رہتے تھے وسوں کی سہو لتوں کو خیر باد کہہ کر ٹف ماحول میں جانا آسان نہ تھا مگر وہ دنیا کو ایک پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ مذاہب سے جڑت سماج کے لیےBinding Forceثابت نہیں ہو گی۔ مگر اپنی تہذیب، ثقافت اور دھرتی سے وابستگی انسانی حوالوں کو نئے رنگ اور نئے انگ عطا کریں گے۔ چولستانی نباتات اور اس کی جنگلی حیات، اس کی فضا اور سروں سے عبادت اس کی تیز ہوائیں دراصل پیا ر پریت کے نغمے ہیں جو تہذیبی تصادم کو رد کرتے ہیں ، اس لیے وہ اپنے من میں مظاہر فطرت کو جذب کر کے عالمگیر محبت کے پر چار ک دکھائی دیتے ہیں ۔
؂ ملک ملھیر دی نازو چالی پولی لانڑی دا رتبہ عالی
ٹوکاں کر دی دھوڑی والی کیسر، مشک، عنبیر تے
[ ملک ملھیر کے طور طریقے نازو انداز والے ہیں ۔ وہاں کی بوٹی اور لانٹری کا تو اعلیٰ مقام ہے وہاں کی ریت ، غبار تو زعفران ، مشک اور عنبر بیر پھبتیاں کہ کستے ہیں] آج وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کو تقسیم کرنے کی وجہ سے عقیدے کی وہ غلط تشریح ہے جس نے زمینی فاصلے کم ہونے کے باوجود انسانوں کو تہذیبوں کے تصادم کا خوف دلا کر راتوں کا سکون چرا لیا ہے ایسے میں فکر فریدؒ کی طرف رجوع کرنے کے امکانات بڑھنے لگے ہیں ۔ خواجہ سئیں جگہ جگہ فطرت سے ہمکلام ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ فطر ت کے ساتھ یہی دوستی انہیں انسانوں کے قریب کرتی ہے، ان کے کلام میں مسجد ، دیر ، کشت ، دوارہ ، مندر: تمام محبت کے استعارے ہیں ، ان کی فکر آفتا ب عالم تاب کی مانند ہے جس سے ایک ہی وقت میں تمام مذاہب اور عقائد کے لوگوں حظ اٹھاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ادب کا مخاطب انسان کا باطن ہوتا ہے اور باطن حساس ، پاکیزہ اور لطیف ہے یہ لطافت اور حساسیت نفرت اور تعصب سے آلودہ ہو جاتی ہے۔ جس کی وقت انسان ناک کی سیدھ میں دیکھنے لگتا ہے اور اسے اپنے سوا سب برا اور گندا دکھائی دینے لگتا ہے تو مسائل اور الجھنیں بڑھنے لگی ہیں ، یہی الجھنیں عدم برداشت اور انتہا پسندی سے پیدا ہوئیں اگر آج کے انسان نے خود کو ان الائشو ں سے محفوظ کر نا ہے تو انہیں فکر فرید کے صوفیا نہ طرز احصاس کی چھاؤں میں آکر سستانا ہو گا ، نہیں تو روز بروز ٹکراؤ اور تصادم کے خطرات لاحق رہیں گے۔
؂ ہے گھر میرا سکھ مندر معمور خفی دے اندر!!!
جتھ بحر محیط دا بندر اتھ ہر جنسوں ملن سوغاتاں
مراد یہ ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے گیت الاپنا اس وقت زیادہ آسان ہو جاتا ہے جب شاطر اور چالاک طبقے اور سوفسطائی قسم کے دانشور عقیدے کی غلط مگر من پسند تشریح کر کے انسانوں کو آپس میں بانٹنے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں ۔ ایسے میں متصوفانہ افکار بطور خاص خواجہ غلام فریدؒ جیسے صوفی کی فکر کا پھیلاؤ انسانوں میں Binding Forceکا کام کرے گی کیونکہ خواجہ سئیں نے اپنے صوفیانہ طرز احساس کو زمین اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ ملا کر ایک عالمگیر اور لازوال محبت کی تلقین کی ہے۔ دھرتی سے جڑت انسانوں کو قریب کرتی ہے اور یہ رویہ تعصب اور پست ذہنیت کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے ۔ ٹوٹ پھوٹ کے اس عہد میں نہ صرف ہمیں بلکہ نفرت اور خوف میں لتھڑی اس پوری کائنات کو ایسی ہی فکر کی ضرورت ہے جو احترام آدمیت کو مستحکم بنیا د فراہم کرے گی۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *