Home » کتاب پچار » سورج سماج کی بازیافت ۔۔۔ وحید زہیر

سورج سماج کی بازیافت ۔۔۔ وحید زہیر

جہاں اجنبی سے چہرے ہوں ۔ جہاں سانپ مزاج سپیرے ہوں ۔ جہاں قاضی گونگے بہرے ہوں وہاں نا معتبر معتبر ٹہرے گا ۔ جہاں ماتمی نظارے ہوں ۔ جہاں کھوکھلے سہارے ہوں ۔ سب بھائیوں کے مارے ہوں۔ وہاں فرد فرد روئے گا۔ جہاں علم پر مصیبت ہو۔ بس دشمنی کی نیت ہو۔ خو دسے فریب عادت ہو۔ گدھوں کا راج ہو گا ۔گدھا سماج ہو گا ۔ گدھوں کا گوشت بکے گا۔ اور مغز بھی پکے گا۔ سوچوذرا رفیقو کیسے دماغ ہو ں گے کیا فیصلے کریں گے ۔ گر گدھ بنیں گے سارے ۔نوچیں گے اپنے پیارے ۔۔۔۔۔۔۔ اس منظر نامہ کو ذہین میں رکھ کر اس مادر علمی کی ذمہ داریوں کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے کبھی کبھار احساس تفاخر سے گزرنا پڑتا ہے کہ یہ تو مہر گڑھ سورج سماج کی بازیافت ہے جہاں زبانوں کو معدوم ہونے سے بچانے کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہے ۔جہاں کلچر تاریخ اورجدید علوم سے آشنائی کی اہمیت سے آگاہی کا کام ہورہا ہے یہاں زندگی کے نباض انسانی افعال کی صحیح سمیت میں رہنمائی کا بیڑا اٹھا ئے ہوئے ہیں مصروف عمل ہیں۔ نبی پاک نے فرمایا تھا” ایک قبیلے کی موت ایک تعلیم یافتہ عالم سے زیادہ آسان ہے”ڈاکٹر لیاقت سنی جیسے قبائلی سماج سے تعلق رکھنے والے مخلصانہ جوان جذبات کے حامل افراد اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ علم کا پھیلاؤ چاہتے ہیں ۔براہوئی شاعری پر مبنی ڈاکٹر لیاقت سنی کی تحقیقی کتاب میں نئے افکار اور خیالات میں جدت کے وہ گوشے نمایاں کئے گئے ہیں جو دنیا کے کسی بھی کونے میں انسانی اقدار کو نمایاں کرنے کیلئے تحْلیق ہو رہے ہیں جن کے ذریعے زندگی کی خوبصورتی کشید کی جاتی ہے ۔ اس کے ذریعے ظلم وناانصافی ۔ امن سے روگردانی کر نے والوں کی درست انداز میں تربیت کی جاتی ہے۔ بیکن نے کہا تھا ” علم سے آدمی کی وحشت اور دیوانگی دور ہو جاتی ہے “اور ہمیں پتہ ہو نا چاہیے کہ علم کی حقیقی ڈگری کے حصول کیلئے کتابوں سے کیسا نباہ چاہیے۔ اور اس نباہ کا کلیہ روح۔ دل اور جذبوں میں ہم آہنگی ہی تو ہے ۔ وگرنہ یہ رشتہ ریحام خان اور عمران خان جیسا مختصر دورانیہ پر منحصر ہو گا یاپھر ستار ایدھی کی نئی نویلی چو ر بیوی جیسا تعلق ہوگا ۔ ایگزٹ کی جعلی ڈگریاں اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں یا پھر علم اور نظریہ کے برعکس سکالر علامہ اقبال کی بیویاں جیسی پی ایچ ڈی کے موضوعات لیں گے ۔مادر علمی جامعہ بلوچستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا طالب علم سب کچھ ہوسکتا ہے علم دشمن نہیں ہو سکتا کیونکہ اس ادارے کے قیام اور علم کے فروغ میں اپنے وقت کے نوجوان رہنماؤں کی جدو جہد شامل ہے جن کا نام اب عقیدت اور احترام سے لیا جاتاہے اور اس کی مزیدآبیاری میں موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے قابل اور مخلص استادوں کو کمال حاصل ر ہا ہے۔ ڈاکٹر لیاقت سنی کی براہوئی شاعری پر مبنی کتاب انکا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے اس پر ٹک کر بولنے کیلئے بندے کاسکالر ہو نا ضروری ہے اس کے باوجود لکھتے وقت میں نے بہت کوشش کی کہ اس کی باریکیوں میں جاؤں لیکن ہر مرتبہ بجلی جاتی رہی۔ بمشکل بجلی آئی تو قتل و غارت گری پر مبنی بریکنگ نیوز چلتے رہے بجلی اور گیس کے بل کی ادائیگی کا معاملہ سراٹھاتا رہا ۔یا پھر اداکارہ میرا اور ایان علی کے خبروں کی بازگشت ستاتی رہی یا منی لانڈرنگ کے کرداروں کے بیچ غربت سے تنگ آکرخودکشیاں کرنے والے انسانوں کی بے بسی سرپر سوار رہا ۔ڈاکٹر لیاقت سنی نے ان حالات و واقعات کے باوجود 341صفحات پر مبنی اس تحقیقی کام کے لیے کیسے وقت نکالا ہو گا۔ کس عرق ریزی سے گزرے ہوں گے ۔یہ ڈاکٹر لیاقت سنی کی علم دوستی اور مستقل مزاجی کا نتیجہ ہے شاگرد ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ایک اچھے استاد کی طرح پڑھاتے ہیں ایک مخلص رہنما ء کی طرح نبھاتے ہیں لفظ چبا چبا کر بولتے ہیں علم کے معاملے میں ہر ایک سے جڑتے ہیں ایک سادہ لوح عاشق کی طرح سب کچھ لٹا تے ہیں۔ مشکلات کو گلے لگانے کا ہنر جانتے ہیں، سارا وقت امتحانات، تھیسز اور کلاسز میں وقت گزارتے ہیں۔ اس کے باوجود ایک شریف شوہر کی طرح وقت پر گھر بھی جاتے ہیں اورایک مفکر کی طرح عین وقت پرذاتی کام بھول جاتے ہیں۔ اب دیکھئے بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ پچھلے دنوں گاڑی کا اسٹیرنگ گھمانا بھول گئے تھے جس کی وجہ سے ان کو حادثہ پیش آیا لیکن کسی کی دعا کام آگئی وہ سلامت رہے۔البتہ ان کی گاڑی کاحلیہ ایک ستر سالہ پاکستانی جیسا جوس کے خالی ڈبے کی طرح ہو گیا تھا۔ ہمار ا تعلق اس معاشرے سے ہے جس کے لوگ غصہ کھانے پر ٹھنڈا پانی نہیں پیتے کہتے ہیں کہ حکمانے کھانے پر پانی پینے سے منع کررکھاہے ۔جبھی ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو تا ویسے بھی ہم قسم کھانے اور تندرست رہنے والے لوگ ہیں۔ڈاکٹر لیاقت سنی کا تعلق ادب ہے سے ہیں۔ ادب نہ صرف سماجی سائنس ہے بلکہ یہ سائنس کی سانس ہے جب بھی یہ سانس لینا بھول جاتاہے توگھٹن کی وجہ سے ایک ویتنام برپا کرلیتا ہے ۔سائنس کی انتہالاشوں کی ڈھیر لگا کر امن لانا ہے جبکہ ادب رنگ پھول اور خوشبو کا نام ہے ۔ 1960ء سے 2009تک براہوئی شاعری اور شعراء کا احاطہ کرنا مشکل کام ہے جوڈاکٹر لیاقت سنی اپنے اس تحقیقی کام میں کر چکے ہیں تاہم اس کے بعد آنے والے محققین کیلئے یہ کام آگ کا دریا عبور کرنے سے کم نہ ہو گا کیونکہ موجودہ دور میں بعض شعراء کا مزاج بگڑ چکا ہے یا ان کی مجبوری کہہ لیں۔ سرکاری مشاعروں کی وجہ سے وہ خامخواء بدنام ہو چکے ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ آج کل آپ کسی بھی جگہ کسی شاعر کا تذکرہ کر لیں تو وہ اگلے روز معاوضہ لینے پہنچ جائے گا۔ جب ہر چیز کمرشل ہوجائے تو کمر نے تو شل ہو نا ہے ۔براہوئی زبان بھی دیگر زبانوں کی طرح میٹھی زبان ہے اس کی مٹھا س دانہ پہ دانہ کی شہرت ہے ماں کی لوری اس کی صداقت ہے۔ بلو چ سائیکی میں اپنی عزیز ترین چیز کو بچانا اور سازشوں سے دور رکھنا آزمودہ ہے۔ انگریزوں کی یہاں آمد کے بعد انہیں اندازہ ہو ا کہ وہ زبان کے ذریعے فساد برپا کرنا چاہتے ہیں انہوں ا ن کے سیکھنے کے عمل کو روکنے کیلئے ان سے گاڑھی زبان میں بات کی جس پر انگریزوں کو لکھنا پڑا کہ براہوئی زبان ایسی ہے جیسے کسی کنستر میں پتھر ڈال کر اسے ہلا یا جائے اور اس سے گڑ گڑ کر تا ابھرتا شور ہی سمجھو براہوئی زبان ہے حالانکہ براہوئی زبان کا پہلا صاحب کتاب شاعر ملک داد قلاتی ہے جو غرشین قبیلہ سے تعلق رکھتاہے مجھے یاد ہے جب جامعہ بلوچستان سے ماسٹر ڈگری کا اجراء ہو ا تو اس میں امتحانات دینے والوں کی اکثریت پنجابی ۔ہزارگی۔ پشتو اور اردو بولنے والے تھے جنہوں نے سرکاری ملازمت میں ایک انکریمنٹ کے حصول کیلئے براہوئی میں امتحان دینے کو مناسب جانا اورپاس بھی ہوئے ۔ یہ اس زبان کی مٹھاس ہے اور اس سے قربت کا نتیجہ ہے انسانی جسم میں جب ریڈ سیل بننے کا عمل رک جائے تو بڑے سے بڑا بت سکڑ کر رہ جاتاہے ۔زبانیں کسی معاشرے میں ریڈسیل کا کام کر تی ہیں ان سے روگردانی سے روحانی خوراک کا مسئلہ پیدا ہوسکتاہے اسکے علاوہ ہمارے ہاں جب جسم سے محبت کے سرخ سیل جگہ بدل لیں تو ایسے شخص کو پیہن خنی کہا جاتاہے جس سے بڑا طعنہ اورکوئی نہیں۔ بہرحال آج کے گلوبل ویلج میں کھنڈرات شمار نہیں ہو تے ۔ لہذا علم و آگہی کے ذریعے خو د کو کھنڈرات بننے سے بچا نا ناگزیر ہے نامور محقق ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی ڈاکٹر لیاقت سنی کی کتاب پر لکھتے ہیں ” اس کتاب کے پڑھنے سے براہوئی شاعری کو سمجھنے اور اشعار میں مختلف مضامین سے برتاؤ کے جدید رویوں کا درک ملتاہے ڈاکٹر لیاقت سنی کی اس قدر باریک بینی سے تحقیقی کے کام معیار ی ہونے کا بھی پتہ چلتاہے”۔ جہاں ڈاکٹر لیاقت سنی جیسے اساتذہ ۔ دانشور پیدا ہوں گے وہاں روحانی تطہیر کا عمل جاری رہے گا بلوچستان یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی ڈگریوں کے عمل سے قبل اس کے معنی کچھ اس طرح تھے یارفلاں چور تالے توڑنے میں پی ایچ ڈی ہے وہ شخص تو جھوٹ بولنے میں پی ایچ ڈی ہے ہمارا تاڑو ۔ ہمارا چھوڑوتو اپنے کام میں پی ایچ ڈی ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ کسی خستہ مکان میں تعویذ گنڈوں پر مامور خلیفہ برج خلیفہ کو خود سے منسوب کر تا ہے شیکسپیئر کو شیخ پیر بناکر اس سے رشتہ جوڑتا ہے ماں باپ بہادرخان ۔ شیرخان ۔ عظیم خان نام رکھ کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہ ہو تے ہیں مگر وہ ماں باپ قابل احترام ہیں قابل ستائش ہیں جو لیاقت نام رکھ کر ناموں کی لاج رکھنے میں کامیاب ہو تے ہیں بس یوں سمجھیے یہی سورج سماج کی بازیافت ہے یہی براہوئی شاعری ہے یہی ہمارے مادرعلمی کا فلسفہ وپیغام ہے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *