Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ وصاف باسط

غزل ۔۔۔ وصاف باسط

چار سو خوف ہی میں رکھی ہے
روشنی تیرگی میں رکھی ہے

میں نے خواہش لپیٹ کر اپنی
ایک صندوقچی میں رکھی ہے

موت سے اب نہیں ہے ڈر کوئی
موت تو زندگی میں رکھی ہے

وہ کسی کو نہیں ملے گی یہاں
سندری جھونپڑی میں رکھی ہے

سانس رکھی نہیں ہے طوطے میں
جان میری پری میں رکھی ہے

چیخ کر بھی تو دیکھ لو باسط
بات کیا خامشی میں رکھی ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *