( دانیال طریر کے لیے)
نئے،لہجے سے آسودہ
نکھرتی فکر سے زیبا
چمکتے ، جاگتے، لہریں اٹھاتے
نئے ملبوس خوابوں کو عطا کرتے ہوئے
الفاظ سے آراستہ ہوکر
تمہاری نظم
شانوں پر تمہیں اپنے اٹھائے
صدا اور برق کی رفتار پاؤں میں سجائے
بہت ہی دور جانے کو کھڑی ہے
طریر! اب میرؔ کی بگھی
بہت آہستگی سے
تم سے رخصت چاہتی ہے
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...